وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولُوا أَهَٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ
اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہا کریں، کیا یہ وہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا (١) کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ شکرگزاروں کو خوب جانتا ہے (٢)
فہم القرآن : (آیت 53 سے 55) ربط کلام : پہلی آیت میں نبی اکرم (ﷺ) کو ہدایت فرمائی گئی تھی کہ غریب صحابہ (رض) کو اپنے سے دور نہ کیجیے اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے غریب صحابہ (رض) کو قدر افزائی اور فضل و کرم کا پیغام سنایا گیا ہے۔ کفار کی طرف سے غریب صحابہ (رض) کی حوصلہ شکنی اور طعنہ زنی کے بدلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی اور قدر دانی، فضل و کرم کا پیغام اور گناہوں کی بخشش کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ کفار نے غریب صحابہ (رض) کو حقیر سمجھ کر ان کی دنیاوی پسماندگی کا مذاق اڑایا تھا جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ پر چار کرم فرمائے۔ 1۔ صحابہ کے ایمان اور اخلاص کی قدر افزائی فرمائی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی کا پیغام آیا۔ 3۔ رب رحیم کی رحمت کے حق دار ٹھہرائے گئے۔ 4۔ گناہوں کی بخشش کی خوشخبری دی گئی۔ یہاں جہالت کو گناہ کا سبب قرار دیا ہے۔ جہالت کا مفہوم واضح کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے جہالت سے مراد یہ نہیں کہ آدمی کو گناہوں کے بارے میں علم نہ ہو بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ آدمی جب گناہ کرتا ہے تو اس وقت وہ عملاً جاہل ہوجا تا ہے۔ اس لیے ہر زبان میں یہ معروف ہے کہ جب کوئی پڑھا لکھا انسان غلطی کا ارتکاب کرے تو لوگ اسے جاہل قرار دیتے ہیں۔ گویا کہ گناہ کا دوسرا نام جہالت ہے۔ یہاں اس لیے بھی جہالت کا لفظ استعمال کیا ہے تاکہ کفارکو اس بات کا احساس ہو کہ دین سے بے بہرہ ہونا پرلے درجے کی جہالت ہے۔ بہر حال جہالت کی کسی شکل میں انسان سے غلطی ہوجائے پھر وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تو بہ کرے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ کافر کی توبہ یہ ہے کہ وہ کفر سے تائب ہو کر اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہوئے اصلاح کا رویہ اختیار کرے۔ یقیناً اس کے سابقہ گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکام کو اس لیے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ مجرموں کا راستہ واضح ہوجائے یہاں ہدایت کے بجائے مجرموں کا راستہ واضح کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح گمراہی کے مقابلے میں ہدایت اور کفر و نفاق کے مقابلے میں دین کا راستہ خود بخود نمایاں ہوجاتا ہے۔ مجرموں کے راستے کو واضح کرنے کا یہ بھی مقصد ہے کہ جس طرز حیات پر وہ اتراتے ہیں انھیں احساس ہو کہ یہ اللہ کے فرماں بردار بندوں کا طریقہ اور راستہ نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مجرموں کا راستہ جہنم ہوگا جو نہایت ہی برا راستہ ہے۔ یہاں مومنوں کو اپنی رحمت کی خوشخبری سنانے کے بعد مجرموں پر واضح فرمایا کہ اگر تم بھی بغاوت اور تکبر کا راستہ ترک کرکے نیک بندوں کے ساتھ عاجزی اور اپنے رب کے حضور سرافندگی کا طریقہ اختیار کرلو۔ تو اس کی رحمت تمہیں بھی اپنے دامن میں پناہ دینے کے لیے تیار ہے۔ اگر تم نے اس کے نیک بندوں کے ساتھ تکبر اور اپنے رب کے ساتھ نافرمانی کا رویہ اپنائے رکھا تو یاد رکھو اس کا عذاب بڑا سخت ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ فِی کِتَابِہٖ فَہُوَ عِنْدَہٗ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِی غَلَبَتْ غَضَبِی)[ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کائنات کی تخلیق سے فارغ ہوا تو اپنی کتاب میں جو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے عر ش کے اوپر لکھا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔