أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
(مسلمانوں) کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حالانکہ ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کلام اللہ کو سن کر، عقل و علم والے ہوتے ہوئے، پھر بھی بدل ڈالا کرتے ہیں۔ (١)
فہم القرآن: ربط کلام : جن کے دلوں پر مہر قساوت لگ چکی ہو ان سے ایمان لانے کی توقع کرنا عبث ہے۔ اے امت محمدیہ کے لوگو! کیا تم اب بھی بہانہ باز، پتھر دل اور کلام اللہ کی تحریف کرنے والے لوگوں سے ایمان لانے کی امید باندھے ہوئے ہو ؟ حالانکہ ان کے جرائم اور عادات کا تفصیلی ریکارڈ تمہارے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں سے ایمان اور خیر کی توقع رکھنا فضول ہے جو جان بوجھ کر قرآن مجید کا مفہوم ہی نہیں بدلتے بلکہ انہوں نے تورات و انجیل کے الفاظ تک بدل ڈالے ہیں۔ جس سے تورات و انجیل کے نزول کا مقصد فوت ہوگیا۔ یہودیوں نے تورات میں قطع و بریدکر کے بیت اللہ کے ساتھ اس کے بانی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعلق منقطع کیا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی جگہ جناب اسحاق (علیہ السلام) کو ذبیح اللہ ثابت کرنے کے لیے تاریخ کا ریکارڈ بدل ڈالا پھر اس سے بڑھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے یہودی اور عیسائی ہونے کے جھوٹے دعوے کیے۔ حالانکہ ابراہیم (علیہ السلام) تورات اور انجیل کے نزول سے سینکڑوں سال پہلے رحلت فرما چکے تھے۔ ایسا وہ کسی غفلت یا لاعلمی کی بنا پر نہیں کرتے بلکہ جان بوجھ کر کرتے ہیں۔ مسائل: 1۔ کلام اللہ کی تحریف کرنے والے سے خیر کی توقع رکھنا فضول ہے۔ 2۔ پتھر دل، بہانہ ساز انسان کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن : کلام اللہ میں اہل کتاب کی تحریف کے مختلف طریقے : 1۔ آیات کو ان کے محل سے آگے پیچھے کردینا۔ (النساء :46) 2۔ اپنی طرف سے کچھ باتیں گھڑ کر شامل کرنا۔ (البقرۃ:79) 3۔ زبان مروڑ کر مفہوم بدل ڈالنا۔ (آل عمران :78) 4۔ بنیادی باتیں چھوڑ کر مشتبہات کے پیچھے لگنا۔ (آل عمران :7)