سورة الانعام - آیت 32

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور دنیاوی زندگانی تو کچھ بھی نہیں بجز لہو لعب کے اور دار آخرت متقیوں کے لئے بہتر ہے، کیا تم سوچتے سمجھتے نہیں۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : مجرم جس دنیا کو ہمیشہ کھیل تماشا تصور کرتے ہیں اس کی حقیقت۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر نازل کرنے کے وقت یہ حقیقت آشکار کردی تھی کہ اے آدم! تم زمین پر اتر جاؤ لیکن یاد رکھنا زمین تیرے اور تیری اولاد کے لیے عارضی قیام گاہ ہے۔ وہاں تمھارا ایک مقررہ مدت تک ہی ٹھہرنا ہوگا۔ یہاں دنیا کی حقیقت بتلائی گئی ہے یہ دنیا کھیل تماشا کے سوا کچھ نہیں جس طرح کھیل اور تفریح زندگی کا مستقل حصہ نہیں کھیل مصروف کار رہنے کے بعد آدمی کے لیے دل بہلاوا اور عارضی راحت کا سبب ہوتا ہے۔ کافر کے لیے دنیا فقط اسی چیز کا نام ہے کہ وہ اس کے لہو و لعب میں مصروف ہو کر رہ جائے اس کے مقابلہ میں مومن دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہوتے ہوئے کھلاڑی کے وقفۂ آرام کی طرح آخرت کی تیاری کے لیے تازہ دم ہوجاتا ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے دنیا عارضی اور آخرت دائمی ہے یہاں کی ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے، آخرت کی زندگی اور نعمتوں کو دوام حاصل ہے۔ اس سوچ کے پیش نظر وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر زندگی بسر کرتا ہے اور یہی انسان کے عقل مند ہونے کی دلیل ہے۔ سر ور دو عالم (ﷺ) نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ اضْطَجَعَ النَّبِیُّ () عَلَی حَصِیرٍ فَأَثَّرَ فِی جِلْدِہِ فَقُلْتُ بِأَبِی وَأُمِّی یَا رَسُول اللّٰہِ لَوْ کُنْتَ اٰذَنْتَنَا فَفَرَشْنَا لَکَ عَلَیْہِ شَیْئًا یَقِیکَ مِنْہُ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ () مَا أَنَا وَالدُّنْیَا إِنَّمَا أَنَا وَالدُّنْیَا کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا) [ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الزہد، باب مثل الدنیا] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) چٹائی پر لیٹے۔ اس کے نشان آپ کے جسم اطہر پر پڑگئے میں نے آپ کو دیکھ کر عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ! آپ حکم دیتے تو ہم آپ کے لیے بستربچھا دیتے جس سے آپ کا جسم اطہر تکلیف سے بچ جاتا۔ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا میری اور دنیا کی مثال اس طرح ہے جیسے کوئی سوار سایہ دار شجر کے نیچے استراحت کے لیے رکے اور پھر اس کو چھوڑ دے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ أَخَذَ رَسُول اللَّہِ () بِمَنْکِبِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیلٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے میرے کندھے سے پکڑ تے ہوئے فرمایا دنیا میں اس طرح رہو جیسے اجنبی یا مسا فررہتے ہیں۔“ عقل مند کون؟ (عَنْ أَبِی یَعْلٰی شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا ثُمَّ تَمَنَّی عَلَی اللّٰہِ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ] ” حضرت ابو یعلی شداد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچانتا ہے اور مرنیکے بعد فائدہ دینے والے اعمال سر انجام دیتا ہے اور نادان وہ ہے جس نے اپنے آپ کو اپنے نفس کے پیچھے لگایا اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ سے تمنا کرے۔“ مسائل : 1۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا محض کھیل تماشا ہے۔ 2۔ متقین کے لیے آخرت میں جنت ہے۔ 3۔ آخرت کی تیاری کرنا انسان کے عقل مند ہونے کی دلیل ہے۔ تفسیر بالقرآن : دنیا کی حیثیت : 1۔ جو چیز تم دیے گئے ہو یہ تو دنیا کا سامان اور زینت ہے۔ (القصص :60) 2۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر کھیل تماشا۔ (العنکبوت :64) 3۔ دنیا آخرت کے مقابلہ میں بہت کمتر ہے۔ (التوبۃ:38) 4۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔ (آل عمران :185) 5۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف :46) 6۔ مال اور اولاد تمھارے لیے فتنہ ہے۔۔ (التغابن :15) 7۔ آپ فرما دیں کہ دنیا کا سامان تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے۔ (النساء :77) 8۔ وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے حالانکہ اس کی آخرت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں۔ (الرعد :26) 9۔ آپ ان لوگوں کو چھوڑدیں جنہوں نے دین کو کھیل تماشہ بنالیا اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں مبتلا کردیا۔ (الانعام :70) 10۔ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو جبکہ آخرت اس سے بہتر ہے۔ (الاعلیٰ:17)