وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں (١) تو کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیئے جائیں اور اگر ایسا ہوجائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو جھوٹا نہ بتلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجائیں (٢)
فہم القرآن : (آیت 27 سے 29) ربط کلام : جو لوگ دنیا میں قرآن مجید کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ ہمارے کانوں کے لیے بوجھ ہے وہ جہنم کے کنارے کھڑے ہو کر آیات ربانی کی حقیقت کا اعتراف اور دنیا میں حق کی شہادت نہ دینے کے جرم کا اعتراف کریں گے۔“ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال پر محیط ہوگا اور اس میں مختلف مراحل ہوں گے۔ جو ہزاروں سال پر مشتمل ہوں گے۔ قیامت کا ہر مرحلہ مجرموں کے لیے سخت سے سخت تر ہوگا۔ پہلے مرحلہ پر مجرم شرک اور اپنے جرائم کا انکار کریں گے اس کے بعد ان کی زبانوں پر مہر ثبت کردی جائے گی تو ان کے اعضاء بول بول کر ان کے بارے میں گواہی دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی جہنم کو ستر ہزار فرشتے بھاری بھرکم زنجیروں کے ساتھ کھینچ کر لوگوں کے سامنے لائیں گے۔ ہر زنجیر کے ساتھ ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے۔ جب مجرموں کو جہنم کے قریب کھڑا کیا جائے گا تو وہ آہ و بکا کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کریں گے کہ کاش ہمیں دنیا میں لوٹنے کا موقعہ نصیب ہوجائے اور ہم دنیا میں جاکر اپنے رب کے احکام کی تکذیب کرنے کے بجائے اس کے ایک ایک حکم پر ایمان لائیں گے۔ ان کا یہ اقرار حقیقت پر مبنی یا دائمی ہونے کے بجائے عارضی اور دفع الوقتی کے لیے ہوگا۔ کیونکہ بفرض محال انھیں واپس لوٹا بھی دیا جائے تو وہ پہلے کی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرتے ہوئے کفر و شرک میں ملوث ہوں گے۔ کیوں کہ وہ عادی مجرم تھے لہٰذا اب بھی کذب بیانی سے کام لیں گے۔ یہ اس لیے ہوگا کہ ان کا نظریہ تھا دنیا کی زندگی ہی مستقل زندگی ہے حالانکہ دنیا کی ہر چیز اپنی ناپائیداری کے بارے میں پکار پکار کر ثبوت دے رہی ہے کہ ہمیں قرار اور سکون نہیں ہے۔ انسان کے سایہ سے لے کر فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیاں اس بات پر گواہ ہیں کہ قرار اور دوام صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے۔ ان کا یہ بھی نظریہ تھا کہ مٹی میں دفن ہونے کے بعد ہمیں ہرگز نہیں اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ اگر انھیں دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے تو وہ وہی کچھ کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا تھا یہ اس لیے کہ انھوں نے دین پر دنیا کو مقدم سمجھا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اگر انہیں دنیا میں لوٹا دیا جائے تب بھی وہ باز نہیں آئیں گے۔ مسائل : 1۔ کافر جہنم کو دیکھ کر حسرت کا اظہار کریں گے۔ 2۔ کافر خواہش کریں گے کہ ہمیں دنیا میں دوبارہ لوٹا دیا جائے۔ 3۔ مشرکین، مومنین کی رفاقت کی خواہش کریں گے۔ 4۔ کافر اسی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : جہنمیوں کا دنیا میں واپس لوٹنے کا مطالبہ : 1۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ:12) 2۔ جب بھی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ لوٹائے جائیں گے۔ (السجدۃ:20) 3۔ جب بھی ارادہ کریں گے کہ ہم نکلیں جہنم سے تو اس میں واپس لوٹائے جائیں گے۔ (الحج :22) 4۔ جہنمی کی خواہش ہوگی کہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : 27تا28) 5۔ اے رب ہمارے! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر :37) 6۔ اے رب ہمارے! ہم کو یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المؤمنون :107)