ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس بھی زیادہ سخت ہوگئے (١) بعض پتھروں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ کے ڈر سے گر گر پڑتے ہیں (٢) اور تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔
فہم القرآن: ربط کلام : احکام الٰہی کے مقابلہ میں حیلے بہانے کرنے سے دل پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں۔ انسان جب اللہ کے احکام سے سر تابی، مسلسل نافرمانیوں کا ارتکاب اور مسائل کی کھال اتارنے کی عادت اختیار کرلیتا ہے تو اس کا دل سخت سے سخت ہوجاتا ہے بالآخر مستقل طور پر گمراہی کے راستے پر چل نکلتا ہے۔ دل کی سختی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی علامت ہے۔ دل سخت ہوجائے تو ایمان کا بیج جسے آگے چل کر اعمال کی صورت میں پھل پھول لانے ہوتے ہیں وہ ابتدا ہی میں مردہ ہوجاتا ہے۔ جس طرح پتھروں کی کئی اقسام ہیں اسی طرح انسانوں کے دلوں کا حال ہے۔ پتھروں سے نہریں نکلتی، چشمے پھوٹتے اور خوف خدا سے ٹنوں وزنی پہاڑ سر کے بل زمین پر آ گرتے ہیں۔ لیکن افسوس انسانی دل گوشت کا ایک ٹکڑا ہونے کے باوجود پتھر سے سخت، پتھر سے سخت تر خوف خدا سے عاری ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے اور اس کے حکم کے سامنے سرنگوں ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اس پر کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک گرنے والے پتھروں اور بہنے والے چشموں کی وہ قدرو منزلت نہیں جو انسان کے دل سے نکلنے والی آہوں، اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں اور اس کے حضور جھکنے والی پیشانیوں کی ہے۔ آخر میں یہ اشارہ فرمایا کہ اے انسان ! جو اللہ فلک بوس پہاڑوں کی اقسام، میلوں تک پھیلی غاروں، چٹانوں اور ان میں سے پھوٹنے والے چشموں‘ چلنے والی آبشاروں اور بہنے والے پانی کے قطرات کو جانتا ہے وہ تیرے دل اور اعمال سے کس طرح بے خبر ہوسکتا ہے ؟ دل نرم کرنے کا طریقہ : 1۔ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ رَجُلًا شَکَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ {ﷺ}قَسْوَۃَ قَلْبِہٖ فَقَالَ لَہٗ إِنْ أَرَدْتَّ تَلْیِیْنَ قَلْبِکَ فَأَطْعِمِ الْمِسْکِیْنَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْیَتِیْمِ) (مسند احمد : باب مسند أبی ھریرۃ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ {ﷺ}سے اپنے دل کی سختی کے متعلق شکایت کی تو آپ نے فرمایا : اگر تو اپنے دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر۔“ 2۔ اللہ کا ذکر کرنا : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو {رض}عَنِ النَّبِیِّ { ﷺ }أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ إِنَّ لِکُلِّ شَیْءٍ صِقَالَۃٌ وَإِنَّ صِقَالَۃَ الْقُلُوْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ وَمَا مِنْ شَیْءٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَاب اللّٰہِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔۔) (صحیح الترغیب للألبانی :1495) ” حضرت عبداللہ بن عمرو {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں آپ فرمایا کرتے تھے ہر چیز کی پالش ہوتی ہے دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے اور اللہ کے ذکر سے زیادہ کوئی چیز اللہ کے عذاب سے نجات دینے والی نہیں ہے۔“ 3۔ قرآن کی تلاوت کرنا : ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ إِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ﴾ (الأنفال :2) ” مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور جب انہیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ گناہوں سے دل سخت ہوجاتے ہیں۔ 2۔ اللہ کے ذکر سے دل نرم ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : دل کی سختی کے اسباب : 1۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے دل سخت ہوتا ہے۔ (البقرۃ:74) 2۔ عہد شکنی کی وجہ سے دل سخت ہوتا ہے۔ (المائدۃ:13) 3۔ اللہ کی یاد سے غافل ہونے والے دلوں کے لیے جہنم ہے۔ ( الزمر :22) 4۔ برے اعمال کی وجہ سے دل زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔ (المطففین :14)