وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ
اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے (١)۔
فہم القرآن : (آیت 3 سے 4) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : توحید کے دلائل کا تذکرہ جاری ہے۔ اس سے پہلی آیت میں انسان کی تخلیق اس کی موت و حیات کا ذکر تھا۔ اب اللہ تعالیٰ یہ بتلانا چاہتا ہے کہ اے انسان تجھے ہوش کے ناخن لینے اور اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو پیدا کرنے کے بعد الگ تھلگ ہو کر گوشہ نشین نہیں ہوا۔ بلکہ جس طرح وہ زمین و آسمان کے چپہ چپہ اور ذرہ ذرہ سے واقف اور ان کے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے اسی طرح وہ انسان کی جلوت و خلوت اور ہر قسم کی نقل و حرکت سے واقف ہے۔ کسب کا لفظ استعمال فرما کر انسان کے کردار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اسے اپنے فکر و عمل کا محاسبہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے کردار سے پوری طرح واقف ہے۔ تخلیق کائنات کا پہلے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اے انسان ! اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ذات کبریا ہے جو لامحدود و سعتوں کی حامل زمین جو تہ در تہ سات طبقات پر مشتمل ہے اور آسمان جو اپنی وسعت و کشادگی اور رفعت وبلندی کے اعتبار سے انسانی تخیلات سے ماوراء ہے جب ان کے ایک ایک ذرّے پر اللہ تعالیٰ کنٹرول کیے ہوئے ہے تو تجھے بھی غور کرنا چاہیے کہ تیری جلوت و خلوت، اچھی اور بری حرکت۔ اللہ تعالیٰ کے اختیار سے باہر نہیں ہو سکتی یہ تو اس کی حکمت بالغہ اور ابدی فیصلے کا نتیجہ ہے کہ اس نے انسان کو ایک مدت معینہ تک ڈھیل دے رکھی ہے لیکن انسان کی کوتاہ بینی کا عالم یہ ہے کہ وہ چار سو پھیلی ہوئی اس کی قدرت کی نشانیوں سے اعراض اور انحراف کرتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب بھی انسان کے سامنے انبیاء (علیہ السلام) نے حق پیش کیا تو انسانوں کی غالب اکثریت نے اس کی تکذیب کی۔ اس تکذیب کا نتیجہ عنقریب ان کے سامنے آجائے گا جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ کی صورت میں ہوگا۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جب اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تجلی فرمائی اس وقت وہ اندھیری رات میں پتھر پر چلنے والی چیونٹی کو دیکھ رہا تھا دس فرسخ کے فاصلے سے۔“ [ (الشفا) بحوالہ ابن کثیر]