قَالَ اللَّهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
اللہ ارشاد فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آئے گا (١) ان کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ سے راضی اور خوش ہیں، یہ بڑی بھاری کامیابی ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : عیسیٰ (علیہ السلام) کی معذرت اور فریاد کے باوجود اللہ تعالیٰ مشرکوں کے بارے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی فریاد قبول نہ کرتے ہوئے فرمائے گا کہ آج کے دن سچے شخص کو اس کی سچائی کا فائدہ پہنچے گا۔ اس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دی گئی ہے اے عیسیٰ جو کچھ تم نے کہا سچ کہا کہ واقعی تو اور تیری والدہ نے لوگوں کو شرک کی دعوت نہیں دی تھی لہٰذا تجھے مطمئن رہنا چاہیے آج ہر شخص کو فائدہ پہنچے گا جو سچ پر قائم رہا اور سچ کی دعوت دیتا رہا۔ ان آیات کے سیاق و سباق سے یہ حقیقت بالکل واضح اور نمایاں ہوتی ہے۔ یہاں صدق سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ہے کیونکہ توحید کے بغیر دنیا کی کوئی سچائی قیامت کے دن انسان کی نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ توحید کے مقابلہ میں شرک ہے اور شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا سورۃ النساء، آیت : 116میں فیصلہ ہے کہ اس نے شرک کو ہرگز معاف نہیں کرنا جبکہ دوسرے جس کو چاہے گا اس کے دوسرے گناہ معاف کر دے گا۔ جہاں تک توحید کے علاوہ دوسرے اعمال کا تعلق ہے نیکی کرنے والے کو اسکی نیکی کا دنیا میں فائدہ پہنچے گا لیکن شرک کی وجہ سے قیامت کے دن اس کے سب اعمال غارت ہوجائیں گے۔ اس کے مقابلے میں عقیدۂ توحید پر قائم رہنے اور اس کے مطابق نیک اعمال کرنے والوں کے لیے ایسی جنت ہے جس کے نیچے نہریں اور چشمے جاری ہوں گے۔ اس میں صادقین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داخلہ نصیب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوگا اور یہ اپنے رب پر خوش و خرم ہوں گے ان کے لیے عظیم کامیابی ہے۔ (عَنْ عمرو بن العاص (رض) قال أَتَیْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) فَقُلْتُ ابُسُطْ یَمِینَکَ فَلْأُبَایِعْکَ فَبَسَطَ یَمِینَہُ قَالَ فَقَبَضْتُ یَدِی قَالَ مَا لَکَ یَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُّ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ یُّغْفَرَ لِی قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب کون الاسلام یھدم ماقبلہ وکذا الھجرۃ والحج] ” حضرت عمر و بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی اے اللہ کے رسول اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجیے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ جب آپ (ﷺ) نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ تب آپ (ﷺ) نے پوچھا اے عمرو! کیا ہوا ؟ میں نے عرض کی کہ ایک شرط کے ساتھ بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ ارشاد ہوا کہ وہ کون سی شرط ہے؟ میں نے عرض کی کہ میرے گناہ معاف کردیے جائیں۔ فرمایا عمرو تجھے معلوم نہیں اسلام پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔“ مسائل : 1۔ عقیدۂ توحید اور صالح اعمال والے ہی سچے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی رضا بہت بڑی نعمت ہے۔ 3۔ جنت کا حصول بہت بڑی کامیابی ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی رضامندی سب سے بڑی نعمت ہے : 1۔ اللہ نے مومن مرد اور عورتوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ اللہ کی رضامندی بڑی بات ہے۔ (التوبۃ:72) 2۔ آج کے دن سچائی فائدہ دے گی۔ ان کے لیے جنت ہے۔ اللہ ان سے راضی ہوا۔ وہ اللہ پر راضی ہوگئے یہی بڑی کامیابی ہے۔ (المائدۃ:119) 3۔ صحابہ کرام (رض) اللہ پر راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوگیا۔ (المجادلۃ:22) 4۔ اللہ کی رضا بہت بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ:100) 5۔ ایمان دار، اعمال صالح کرنے والوں سے اللہ راضی ہوگا اور وہ اللہ پر راضیہوں گے۔ (البینۃ : 7تا8)