يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ
اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخص کا گواہ ہونا مناسب ہے جبکہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں خواہ تم سے ہوں (١) یا غیر لوگوں میں سے دو شخص ہوں اگر تم کہیں سفر میں گئے ہو اور تمہیں موت آجائے (٢) اگر تم کو شبہ ہو تو ان دونوں کو بعد نماز روک لو پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس قسم کے عوض کوئی نفع نہیں لینا چاہتے (٣) اگرچہ کوئی قرابت دار بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی بات کو ہم پوشیدہ نہ کریں گے ہم اس حالت میں سخت گناہ گار ہوں گے۔
فہم القرآن : (آیت 106 سے 108) ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں مخصوص حالات میں مسلمانوں کو اپنے آپ کی فکر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جس میں بعض لوگوں سے فریضۂ تبلیغ سے کوتاہی کا اندیشہ ہوسکتا تھا۔ اسے دور کرنے کے لیے یہ حکم نازل ہوا کہ فریضۂ تبلیغ ایک شہادت ہے شہادت کی ایک قسم گواہی ہے۔ مشکل اور نازک وقت میں بھی اسے ٹھیک طور پر ادا کرنا چاہیے۔ آیت کا پس منظر مفسرین نے اس طرح ذکر کیا ہے جو بخاری کتاب الوصایا میں مختصر لیکن احادیث اور سیرت کی دوسری کتب میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بنو سہم قبیلے کا ایک مسلمان جس کا نام بدیل تھا تمیم داری اور عدی کے ساتھ سفر میں تھا تمیم اور عدی اس وقت عیسائی تھے۔ حضرت بدیل راستے میں بیمار ہوئے اور فوت ہوگئے۔ انھوں نے فوت ہونے سے پہلے اپنے سامان کی ایک فہرست تیار کرکے چپکے سے اپنے سامان میں رکھ دی۔ اس سامان میں ایک قیمتی پیالہ تھا جسے سونے کی تار سے جوڑا گیا تھا۔ فوت ہونے والے نے وصیت کی کہ یہ سامان میرے ورثاء تک پہنچا دیا جائے۔ واپسی پر عدی اور تمیم داری نے یہ سامان مرحوم کے ورثاء کے حوالے کیا۔ سامان کھولنے پر جب فہرست ملی تو اس میں سے پیالہ غائب تھا جسے عدی اور تمیم داری نے مدینے کے ایک سنار کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا مرحوم کے ورثاء نے ان دونوں سے پوچھا کہ فوت ہونے والے نے سامان سے اپنے علاج کے لیے کوئی چیز فروخت تو نہیں کی تھی؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا تب مرنے والے کے ورثاء نے سامان کی فہرست پیش کرتے ہوئے ان سے اس قیمتی پیالے کا مطالبہ کیا لیکن دونوں نے اس کا انکار کیا۔ بالآخر مقدمہ نبی معظم (ﷺ) کے ہاں پیش ہوا گواہی نہ ہونے کی وجہ سے عدی اور اس کا ساتھی بری قرار پائے۔ تھوڑے عرصہ کے بعد پیالہ سنار کے ہاں پایا گیا تب بدیل کے ورثاء نے دوبارہ اللہ کے نبی (ﷺ) کے سامنے یہ بات رکھی آپ نے عدی اور تمیم کو بلایا اور ورثا نے آپ کی موجودگی میں ان دونوں کے سامنے قسم اٹھائی کہ ہم بالکل سچی قسم اٹھارہے ہیں اور ان کی قسمیں جھوٹی ہیں۔ یہ حلف نماز عصر کے بعد دیا گیا تھا اور آپ کو یقین ہوگیا کہ بدیل کے ورثاء کی قسم سچی ہے جس بناء پر دونوں عیسائیوں سے پیالے کی قیمت ایک ہزار درہم وصول کرکے ورثاء کو دی گئی بعد ازاں عدی اور تمیم مسلمان ہوئے تو انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا واقعی ہم نے پیالہ چوری کیا تھا۔ اس وقت سے یہ قانون جاری ہوا کہ سفر کی حالت میں ایسا واقعہ پیش آجائے اور بیمار کو اپنی موت کا یقین ہونے لگے تو وہ اپنا سامان دوسرے کے حوالے کرتے ہوئے دو مسلمان گواہ بنائے۔ اگر مسلمان نہ ہوں تو غیر مسلموں میں بھی دو عادل گواہ مقرر کیے جا سکتے ہیں قسم اٹھانے والے نماز عصر کے بعد کھڑے ہو کر ان الفاظ کے ساتھ اللہ کی قسم اٹھائیں کہ ہم ذاتی مفاد اور کسی عزیز کی طرفداری کیے بغیر اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھتے ہوئے اور کوئی چیز چھپائے بغیر حلف دیتے ہیں کہ اگر جھوٹی قسم اٹھائیں گے تو ہم مجرم ہوں گے۔ اس موقع پر قرآن مجید کا یہ ارشاد سامنے رکھتے ہوئے نبی (ﷺ) حلف دینے والے کو اس کے حلف سے پہلے اللہ تعالیٰ کا خوف دلایا کرتے تھے۔ لہٰذا حلف لینے والے کی ذمہ داری ٹھہری کہ وہ قسم لینے سے پہلے اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کرے۔ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ہِلَالَ بْنَ أُمَیَّۃَ قَذَفَ امْرَأَتَہُ فَجَاءَ فَشَہِدَ وَالنَّبِیُّ (ﷺ) یَقُولُ إِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَکُمَاکَاذِبٌ فَہَلْ مِنْکُمَا تَائِبٌ ثُمَّ قَامَتْ فَشَہِدَتْ)[ رواہ البخاری : کتاب الطلاق، باب یبدء الرجل بالتلاعن] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہلال بن امیہ (رض) نے اپنی بیوی پر الزام لگایا تو وہ آئے اور گواہی دی تو نبی (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔ کیا تم میں کوئی ہے جو تو بہ کرے ؟ پھر وہ عورت کھڑی ہوئی اور اس نے گواہی دی۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنْ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ الْکَبَائِرُ الْإِشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان والنذور، باب یمین الغموس] ” عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو قتل کرنا اور جھو ٹی قسم اٹھا نا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ یَقْتَطِعُ بِہَا مَالَ امْرِءٍ، ہُوَ عَلَیْہَا فَاجِرٌ، لَقِیَ اللَّہَ وَہْوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی ﴿إِنَّ الَّذِینَ یَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللَّہِ وَأَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیلاً﴾ الآیَۃَ)[ رواہ البخاری : باب الخصومۃ ] ” حضرت عبداللہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جو آدمی کسی کا مال بٹورنے کے لیے قسم اٹھاتا ہے اور وہ اس میں جھوٹا ہے۔ وہ اللہ کو اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر ناراض ہوگا۔ اس وقت اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی (بے شک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور قسموں کے عوض تھوڑی قیمت وصول کرتے ہیں ) “ مسائل : 1۔ گناہ میں ملوث لوگوں کے بجائے دوسرے لوگ گواہی دیں۔ 2۔ گواہی دینے والوں کو کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ 3۔ اگر مسلمان عادل گواہ نہ ملیں تو غیر مسلم کو بھی گواہ بنایا جا سکتا ہے۔ 4۔ ذاتی مفاد اور رشتہ داری سے بالا تر ہو کر گواہی دینا چاہیے۔ 5۔ گواہ پر شک ہو تو قسم بھی لی جا سکتی ہے اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ 6۔ جھوٹی گواہی دینا ظلم اور کبیرہ گناہ ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا : 1۔ اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (البقرۃ:258) 2۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (البقرۃ:264) 3۔ اللہ تعالیٰ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المائدۃ:108) 4۔ آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (النحل :107) 5۔ گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (النحل :37) 6۔ اللہ تعالیٰ جھوٹے لوگوں کو ہدایت نصیب نہیں فرماتا۔ (الزمر :3)