قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِندَ اللَّهِ ۚ مَن لَّعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ۚ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضَلُّ عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ
کہہ دیجئے کہ کیا میں تمہیں بتاؤں؟ تاکہ اس سے بھی زیادہ اجر پانے والا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون ہے؟ وہ جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور اس پر وہ غصہ ہو اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے معبودان باطل کی پرستش کی، یہی لوگ بدتر درجے والے ہیں اور یہی راہ راست سے بہت زیادہ بھٹکنے والے ہیں (١)۔
فہم القرآن : ربط کلام : اہل کتاب کی دنیا میں سزا اور آخرت میں بدترین انجام۔ اہل کتاب کی اکثریت ماضی کے جرائم اور اپنے آباؤاجداد کے کردار سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے ان کے گھناؤنے کردار پر فخر کرتی ہے۔ جس وجہ سے قرآن مجید ہر دور کے اہل کتاب کو انہی میں شمار کرتا ہے چنانچہ رسول محترم (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ ان سے استفسار فرمائیں کہ کیا تمہیں ان لوگوں کے انجام سے آگاہ نہ کیا جائے جو اپنے کردار کی وجہ سے اللہ کے ہاں اس حد تک بدترین ٹھہرے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور پھٹکار ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں انہیں بندر، خنزیر اور شیطان کے بندے بنادیا گیا۔ یہ لوگ دنیا میں صراط مستقیم سے بھٹک چکے اور آخرت میں ان کا بدترین اور عبرت ناک انجام ہوگا۔ امام رازی (رح) نے مختلف ذرائع سے لکھا ہے کہ یہودیوں میں ہفتہ کے روز زیادتی کرنے والوں کو ذلیل بندر بنادیا گیا اور عیسائیوں میں جن لوگوں نے آسمانی دسترخوان کا مطالبہ کیا پھر نافرمانیوں میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ انہیں خنزیر بنادیا گیا تھا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ امت محمدیہ کے لوگ خنزیر اور بندر تو نہیں بنائے جائیں گے لیکن ان کا ذہن بندروں کی طرح شریر اور ان کا کردار خنزیروں کی طرح بے حمیت ہوجائے گا۔ یہ بات سورۃ البقرہ آیت نمبر 65، 66 میں بیان ہوچکی ہے کہ جس قوم کی اللہ تعالیٰ شکلیں مسخ کرتا ہے وہ تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہا کرتے۔ اس لیے جن لوگوں نے بندر اور خنزیر کی نسل کو یہود و نصاریٰ کے ساتھ وابستہ کرنے کی کوشش کی ہے ان کا نقطۂ نگاہ کسی اعتبار سے پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتا۔ مسائل : 1۔ طاغوت کی عبادت کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور پھٹکارپڑتی ہے۔ 2۔ طاغوت کی عبادت کرنے والوں میں سے اللہ تعالیٰ نے بعض کو بندر اور بعض کو خنزیر بنادیا۔ 3۔ طاغوت کی عبادت کرنے والے سب سے بدتر اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کے راستے سے گمراہ لوگ : 1۔ جو ایمان کو کفر کے ساتھ بدل دے وہ سیدھے راستہ سے گمراہ ہوگیا۔ (البقرۃ:108) 2۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (النساء :116) 3۔ جو اللہ کے ساتھ کفر کرے وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ (النساء :136) 4۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والاگمراہ ہوگیا۔ (الاحزاب :36) 5۔ جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ (الرعد :33) 6۔ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ مثال کے ساتھ فاسق ہی گمراہ ہوتے ہیں۔ ( البقرۃ:26) 7۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پامال کرنے والا سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے۔ (المائدۃ:12) 8۔ کفار سے دوستی کرنے والا سیدھی راہ سے دور چلا جاتا ہے۔ (الممتحنۃ:1) 9۔ دین کے معاملات میں غلو کرنے والا سیدھی راہ سے گمراہ ہوجاتا ہے۔ (المائدۃ :77) 10۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانے والا سیدھے راستہ سے بھٹک گیا۔ (ابراہیم :30)