إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ
ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت و نور ہے یہودیوں میں (١) اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے (انبیاء علیہ السلام) (٢) اور اہل اللہ اور علماء فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا (٣) اور وہ اس پر اقراری گواہ تھے (٤) اب تمہیں چاہیے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے سے مول نہ بیچو (٥) اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ (پورے اور پختہ) کافر ہیں۔ ( ٦)
فہم القرآن : ربط کلام : تورات کی تعلیمات کی مزید وضاحت۔ قانون کی بالادستی اور حدود اللہ کا نفاذ۔ حدود الٰہی کو دل و جان سے تسلیم کرنا مجرمانہ ذہنیت کے لیے ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ انسانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ جب کسی معاشرے میں جرم سرزد ہوتا ہے تو وہ سخت نفرت کا اظہار اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن جونہی کچھ عرصہ گزر جائے تو اکثریت کی ہمدردیاں مظلوم کے ساتھ نہ صرف ختم ہوجاتی ہیں بلکہ مجرم کو سزا دینے کے وقت ان کو مجرم پر ترس آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس لیے سورۃ نور آیت 2میں حکم دیا کہ جب مجرموں کو سزا دی جائے تو مومنوں کو اس پر ترس نہیں آنا چاہیے۔ حدود کے نفاذ اور اس کی اہمیت کے پیش نظر یہاں تورات کی روشن تعلیمات کا ذکر کرنے سے پہلے ﴿ اناانزلنا﴾ کے الفاظ لائے گئے ہیں کہ اس کے نفاذ اور تعلیم میں ذرّہ برابر شک اور رعایت کی گنجائش نہیں کیونکہ تورات اور اس میں نازل ہونے والے احکامات اللہ تعالیٰ نے ہی نازل فرمائے ہیں۔ جو لوگوں کی رہنمائی کے لیے اتنے واضح اور روشن ہیں کہ ان میں کسی قسم کا کوئی اشتباہ نہیں پایا جاتا۔ انھی ہدایات پر انبیاء ( علیہ السلام) بنی اسرائیل اور ان کے صالح کردار حکمران عمل پیرا تھے اور آج بھی منصفانہ مزاج رکھنے والے لوگ تورات کی سچی تعلیمات اور اس میں درج شدہ حدود کی شہادت دیتے ہیں۔ جب یہ ہدایت روشن اور فی الواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔ تو پھر اس پر عمل کرنے میں لوگوں سے ڈرنے کی بجائے، صرف اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرنا چاہیے۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی بجائے لوگوں سے ڈرتے اور دنیا کے فائدے کو اللہ تعالیٰ کی آیات پر مقدم جانتے ہوئے ان کا نفاذ نہیں کرتے وہ لوگ کافر ہیں۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) أَنَّ قُرَیْشًا أَہَمَّہُمْ شَأْنُ الْمَرْأَۃِ الْمَخْزُومِیَّۃِ الَّتِی سَرَقَتْ فَقَالَ وَمَنْ یُکَلِّمُ فیہَا رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فَقَالُوا وَمَنْ یَجْتَرِئُ عَلَیْہِ إِلَّا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ حِبُّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فَکَلَّمَہُ أُسَامَۃُ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَتَشْفَعُ فِی حَدٍّ مِنْ حُدُود اللّٰہِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَہْلَکَ الَّذِینَ قَبْلَکُمْ أَنَّہُمْ کَانُوا إِذَا سَرَقَ فیہِمْ الشَّرِیفُ تَرَکُوہُ وَإِذَا سَرَقَ فیہِمْ الضَّعِیفُ أَقَامُوا عَلَیْہِ الْحَدَّ وَایْمُ اللّٰہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَہَا)[ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب حَدِیثُ الْغَارِ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ قریش کے قبیلہ بنو مخزومیہ کی عورت جس نے چوری کی تھی اس کی وجہ سے خفت محسوس کرنے لگے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے بارے میں اللہ کے رسول کے ہاں کون سفارش کرے گا ؟ تو انھوں نے اللہ کے رسول (ﷺ) کے پیارے صحابی اسامہ بن زید (رض) کو اس کی ہمت و الا پایا۔ اسامہ بن زید (رض) نے اس عورت کی سفارش کی تو اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا کیا تم اللہ کے مقرر کردہ حد کے متعلق سفارش کرتے ہو۔ پھر نبی اکرم (ﷺ) خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو فرمایا تم سے پہلے لوگوں کی ہلاکت کی وجہ یہ بھی تھی جب ان میں معزز قبیلے کا فرد چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی کمزور کسی جرم کا مرتکب ہوتا تو اس پر قانون کا نفاذ کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہ (رض) بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔“ مسائل :1۔ یہودی تورات نہیں مانتے۔ 2۔ کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے کافر ہیں۔ 3۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول (ﷺ) کی بات کو نہ ماننے والا مومن نہیں ہو سکتا۔