وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ
آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو (١) ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا، ان میں سے ایک کی نذر قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی (٢) تو کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا، اس نے کہا اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : قابیل اور ہابیل کا واقعہ پڑھنے کا مقصد یہودیوں کو بتانا ہے کہ تمہارے اور قابیل کے کردار میں کوئی فرق نہیں جس طرح وہ اپنے بھائی پر ظلم کرنے کے بعد پچھتایا تھا۔ عنقریب تمہیں بھی اپنے کیے پر پچھتاوا ہوگا۔ کیونکہ تم بھی اپنے بعد والی امت پر ظلم کر رہے ہو۔ قربانی کا لفظ ” قربان“ بروزن ” سلطان“ سے نکلا ہے عربی محاورات میں قربان ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے جیسا کہ امام ابو بکر جصاص مرحوم نے احکام القرآن میں نقل کیا۔ ” والقربان مایقصد بہ القرب من رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ من اعمال البرّ“”’ قربان ہر اس نیک کام کو کہا جاتا ہے جس کا مقصد اللہ کی قربت حاصل کرنا ہو۔“ لیکن عرف عام میں دسویں ذوالحجہ کو بکرے، دنبے، گائے اونٹ ذبح کرنے کا نام قربانی ہے۔ واقعہ بیان کرنے سے پہلے اس کے متعلق گارنٹی دی گئی کہ واقعہ اور اس کے حقائق اتنے برحق ہیں کہ ان کے بارے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں یہ ہر لحاظ سے حق پر مبنی ہے۔ اس میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے جس طرح قابیل قتل کرنے کے بعد نادم اور پریشان ہوا تھا نبی آخر الزمان (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں پر ظلم کرنے والے بھی یقینی طور پر ندامت اور پریشانی کا سامنا کریں گے۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تاریخی واقعات کو من و عن اور بلا کم و کاست بیان کرنا چاہیے۔ جس میں نہ مبالغہ ہو اور نہ ہی کمی کی جائے۔ عَلَیْہِمْ ضمیر کا اشارہ یہود کی طرف ہے جس کا ذکر ان آیات کے سیاق وسباق سے واضح ہے مگر واقعہ میں جو نصیحت ہے وہ سب کے لیے ہے۔ یہود کو اس لیے مخاطب کیا کہ جس طرح آج تم اپنے سے بعد میں آنے والی امت محمدیہ جو کہ رشتۂ انسانی کی ترتیب کے لحاظ سے تمہارے چھوٹے بھائی ہیں تم حسد وبغض کی وجہ سے ان کو ختم کرنے کے درپے ہوچکے ہو بالکل اسی طرح آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں میں صورت حال پیدا ہوئی کہ ایک نے دوسرے کی عزت اور شرف کو تسلیم نہیں کیا بلکہ حسدو دشمنی میں بہت آگے نکل گیا نتیجتاً اللہ کی زمین پر قتل جیساعظیم سانحہ پیش آیا اور سفاکانہ کردار رکھنے والے کو پچھتانا پڑا۔ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ نسل انسانی کی ابتدائی حالت کے پیش نظر اور انسان کی افزائش کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک حمل میں بچی اور بچہ ہوا کرتے تھے۔ جب یہ جوان ہوجاتے تو بحکم خداوندی پہلے لڑکے کی شادی دوسری لڑکی، دوسرے کی پہلی کے ساتھ یعنی الٹ کرکے ازدواجی تعلق قائم کردیا جاتا تھا۔ جب قابیل کی شادی کا وقت آیاتو اس نے دوسری لڑکی کے ساتھ نکاح سے اس لیے انکار کردیا کہ وہ لڑکی اسے پسند نہ تھی۔ کہنے لگا میں تو اپنی ہم جائی کے ساتھ نکاح کروں گا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھا بالآخر حضرت آدم (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ تم دونوں اللہ کے راستے میں قربانی دو۔ جس کی قربانی قبول ہوجائے اس کی خواہش کے مطابق نکاح کردیا جائے گا۔ قابیل نے ناقص اور پھر خدائے ذوالجلال کی رضا کی بجائے صرف مفاد کی خاطر قربانی دی جبکہ ہابیل نے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے قربانی پیش کی چھوٹے یعنی ہابیل کی قربانی قبول اور بڑے کی مسترد کردی گئی تو اس نے حسد اور بغض سے اپنے چھوٹے بھائی کو قتل کردیا۔ دنیا میں چونکہ یہ پہلا قتل تھا اس لیے قاتل کو یہ پتہ نہ تھا کہ بھائی کی لاش کس طرح دفنائے۔ بالآخر اللہ نے کوّے کو حکم دیا تو کوّے نے دوسرے کوّے کو مار کر اس کے سامنے مٹی میں دفن کیا اس کو دیکھ کر قابیل نے اپنے مقتول بھائی کو دفن کیا اور پھر حسرت کے ساتھ کہنے لگا ہائے افسوس! میں توکوّے سے بھی بدتر نکلا۔ لہٰذا روز اول سے بتا دیا گیا کہ قربانی اور تمام اعمال کی قبولیت کا انحصار تقوی پر ہوگا۔ مسائل : 1۔ ہر نیک کام اخلاص سے کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ متقین کے اعمال قبول کرتا ہے۔ 3۔ آدم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی مسترد کردی گئی۔ 4۔ نیکی قبول کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ تفسیر بالقرآن : قرآن مجید میں قربانی کا بیان : 1۔ آدم کے دو بیٹوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کی۔ (المائدۃ:27) 2۔ ہر امت کے لیے ایک طریقہ مقرر کیا گیا ہے۔ (الحج :34) 3۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی۔ (الصافات :102) 4۔ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ (الکوثر :2) 5۔ قربانی کے اونٹوں کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے شعائر بنایا ہے۔ (الحج :36)