قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ
انہوں نے جواب دیا کہ اے موسیٰ وہاں تو زور آور سرکش لوگ ہیں اور جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ہم تو ہرگز وہاں نہ جائیں گے ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں پھر تو ہم (بخوشی) چلے جائیں گے۔ (١)
فہم القرآن : (آیت 22 سے 23) ربط کلام : قوم کا موسیٰ (علیہ السلام) کو جواب۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حکمت عملی کے تحت قوم کے سرداروں کو فلسطین کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے یہ کہہ کر روانہ کیا کہ ان کی فوجی طاقت کا جائزہ لے کر مجھے رپورٹ دینا لیکن یاد رکھنا یہ خبر بنی اسرائیل یعنی عوام کو نہیں پہنچنا چاہیے۔ اس کے باوجود بارہ میں سے دس لیڈروں نے موسیٰ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے اپنے قبائل کے چیدہ چیدہ افراد کو صورت حال بتلائی کہ جس سر زمین کی طرف ہمیں پیش قدمی کا حکم دیا جا رہا ہے۔ وہاں بڑے بڑے کڑیل جوان، جنگ جو اور بہادر لوگ ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں چنانچہ جوں ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو جہاد کی تیاری کا حکم دیا اور فرمایا آگے بڑھنا پیچھے نہ ہٹنا۔ ورنہ شکست ہوگی دنیا میں ذلیل اور آخرت میں تمہیں اس فرار اور انکار کی سزا ملے گی۔ دو لیڈروں کے سوا باقی سب نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہاں ہمارے مقابلے میں انتہائی طاقت ور لوگ رہتے ہیں۔ ہم ان کا ہرگز مقابلہ نہیں کرسکتے ہم تبھی ارض مقدس میں داخل ہوں گے جب وہ لوگ خود بخود وہاں سے نکل جائیں لیکن ان میں سے دور ہنما ایسے تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے ثابت قدم رہنے کا انعام فرمایا تھا کیونکہ وہ خوف خدا رکھنے والے تھے نہ انھوں نے راز افشا کیا اور نہ ہی جہاد سے فرار اختیار کیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مؤقف کی پر زور تائید کرتے ہوئے اپنی قوم کو سمجھایا کہ حوصلہ نہ ہارو اور دل چھوٹا نہ کرو۔ اگر تم ایماندار ہو توجناب موسیٰ (علیہ السلام) کے فرمان پر یقین رکھو۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو جوں ہی تم اس سرزمین پر قدم رکھو گے فتح تمہاری ہوگی۔ لیکن سمجھانے اور کوشش کے باوجود انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا کہ ہمارے وہاں داخل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اگر آپ کو فتح کا اتنا ہی شوق اور یقین ہے تو تم اور تمہارا رب جہاد کرے ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے۔ مسائل : 1۔ اللہ سے ڈرنے والوں پر اللہ کا انعام ہوتا ہے۔ 2۔ اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننے والے غالب آتے ہیں۔ 3۔ مومن ہر حال میں اللہ تعالیٰ پہ توکل کرتے ہیں۔ 4۔ نیک لوگوں کو دوسروں کو نیکی کی تلقین کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے : 1۔ رسول کریم کو اللہ پر تو کل کرنے کی ہدایت۔ (النمل :79) 2۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلۃ:10) 3۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف :67) 4۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق :3 5۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ:129) 6۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران :159) 7۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ (العنکبوت :59) 8۔ اللہ پر ایمان لانے والوں اور توکل کرنے والوں کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ (الشوریٰ :36)