يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا ہے اسے یاد کرو جب ایک قوم نے تم پر دست درازی کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا (١) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
فہم القرآن : ربط کلام : نعمتوں کی یاد دہانی اور ان کی قدر شناسی کے بعد دو قسم کے انجام کا ذکر ہوا۔ اب دشمن کے مقابلہ میں تحفظ فراہم کرنے کا انعام یاد کرایا جا رہا ہے۔ علامہ ابن کثیر نے اس آیت کا شان نزول ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ رسول محترم (ﷺ) چند صحابہ (رض) کے ساتھ یہودیوں کے قبیلہ بنی نضیر کے ہاں پہنچے آپ کسی معاملہ کے بارے میں گفتگو فرمار ہے تھے۔ یہودیوں نے عمرہ بن جحش کو کہا کہ تم مکان کی چھت سے ایک بھاری پتھر نبی کے اوپر گراؤ تاکہ اس کا خاتمہ ہوجائے۔ کچھ اہل علم نے تنعیم کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار کی ایک جماعت نے صحابہ پر شب خون مارنے کی سازش کی۔ لیکن صحابہ (رض) کے جذبہ اطاعت شعاری سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ انھوں نے آگے بڑھنے کی بجائے پسپائی میں خیر جانی۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے بطور نعمت ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم کو یاد کرو جب لوگوں نے تم پر جارحیت کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اعصاب توڑ دیے۔ واقعہ یاد کروانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے دین کو اپنانے اور اسے نافذ کرنے میں کسی قسم کا خوف خاطر میں نہیں لانا چاہیے اور غیروں پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ اور اعتماد کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والے کبھی نقصان نہیں اٹھاتے کیونکہ اللہ تعالیٰ انھیں کافی ہوتا ہے۔ (الطلاق :3) اللہ تعالیٰ کا خوف اختیار کرنے سے مسلمان کے کردار میں پرہیزگاری اور نکھار پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے سے غیروں کے مقابلہ میں حوصلہ، جرأت اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ( عَنْ أَبِی مُوسٰی (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) مَثَلُ الَّذِی یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِی لَا یَذْکُرُ رَبَّہُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ)[ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ عزوجل] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ اپنے پروردگار کا ذکر کرنے والے کی مثال زندہ اور نہ کرنے والے کی مثال مردہ شخص کی سی ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) یَقُول اللّٰہُ تَعَالَی أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی وَأَنَا مَعَہُ إِذَا ذَکَرَنِی فَإِنْ ذَکَرَنِی فِی نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہُ فِی نَفْسِی وَإِنْ ذَکَرَنِی فِی مَلَإٍ ذَکَرْتُہُ فِی مَلَإٍ خَیْرٍ مِنْہُمْ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب یحذرکم اللہ نفسہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں اپنے بندے کے ساتھ اپنے بارے میں اس کے ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔ وہ جب میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اگر وہ میرا ذکر اپنے دل میں کرتا ہے تو میں اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میرا ذکر کسی گروہ میں کرتا ہے تو میں اس کا ذکر اس سے بہتر گروہ میں کرتاہوں۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ) [ رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِی حَالِ الْجَنَابَۃِ وَغَیْرِہَا] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کائنات (ﷺ) ہر حال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے۔“ مسائل : 1۔ ہرو قت اللہ تعالیٰ کے احسان یاد رکھنے چاہییں۔ 2۔ اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی حفاظت کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے : 1۔ مومنوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (آل عمران :122) 2۔ جب کسی کام کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ (آل عمران :159) 3۔ احد کے غازیوں نے کہا ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے اور وہی ہمیں کافی ہے۔ (آل عمران :173) 4۔ مومن اپنے رب پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں۔ (الانفال :2) 5۔ جو شخص اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے اللہ ہی اس کو کافی ہے۔ (الطلاق :3)