يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہوجاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ (١) کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے (٢) عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : تکمیل دین کی خوش خبری درحقیقت اسلامی انقلاب کے غلبہ کی نوید ہے اس لیے صحابہ (رض) اور مسلمانوں کو عدل و انصاف پر قائم رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اہل مکہ اور دیگر قبائل نے جس جس انداز سے نبی (ﷺ) اور آپ کے رفقاء پر جو رواستبداد کیا تھا اس کا تقاضا یہ تھا کہ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین جب اہل کفر پر غالب آتے تو ان سے گن گن کر بدلے لیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت یہ ہدایت فرمائی کہ ” اے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والو! تمہیں ہر حال میں اپنے رب کی رضا کے لیے عدل و انصاف پر قائم رہنا چاہیے۔“ (النساء :135) میں اس سے ملتا جلتا حکم پہلے گزر چکا ہے وہاں گواہی کے بارے میں اپنی ذات اور اعزاء و اقرباء کی طرف داری سے روکا گیا تھا۔ دوسری بات جو عدل کے معاملہ میں رکاوٹ بنتی ہے وہ کسی فرد یا قوم کی دشمنی اور عداوت ہوا کرتی ہے لہٰذا یہاں اس بات سے روکا گیا ہے کہ بے شک کسی فرد یا قوم کے ساتھ تمہاری دشمنی ہی کیوں نہ ہو یہ عدل و انصاف کی راہ میں آڑے نہیں آنی چاہیے دونوں آیات میں یہ تلقین فرمائی ہے کہ یہ کام عقیدت و عداوت سے بالا تر ہو کر محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔ یہی انصاف کا تقاضا اور خدا خوفی کا خاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور ہر دم یہ عقیدہ تازہ رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری حرکات و سکنات اور اعمال و کردار کی خبر رکھنے والا ہے۔ شہادت کی تفسیر کرتے ہوئے معارف القرآن کے مصنف مفتی محمد شفیع (رض) لکھتے ہیں :” ڈاکٹر کا میڈیکل سر ٹیفکیٹ جاری کرنا، مہتمم کا طالب علموں کے پیپروں پر نمبر لگانا، انتخاب کے وقت کسی کو ووٹ دینا بھی شہادت کے زمرے میں آتا ہے۔“ فرماتے ہیں کہ ووٹ کی دو حیثیتیں ہیں۔ 1۔ ووٹ دینا شہادت ہے جو آدمی تحریراً یا ہاتھ اٹھا کر کسی آدمی کے اہل ہونے کے بارے میں دیتا ہے۔ 2۔ ووٹ دیناکسی کو اپنے ذاتی اور قومی معاملات میں وکیل بنانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا یہاں بھی عدل و انصاف کو پیش نگاہ رکھ کردینا چاہیے کیونکہ اس کے مضمرات ایک فرد نہیں بلکہ ملک و ملت کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ سُئِلَ النَّبِیُّ (ﷺ) عَنْ الْکَبَائِرِ قَالَ الإِْشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَشَہَادَۃُ الزُّورِ) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب ماقیل فی شھادۃ الزور] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا، آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔“ مسائل : 1۔ ہمیشہ سچی اور انصاف پر مبنی گواہی دینی چاہیے۔ 2۔ باہم چپقلش کی وجہ سے انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ 3۔ عدل کرنا تقوٰی کے زیادہ قریب ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن : عدل کی اہمیت : 1۔ عدل کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو اللہ سینوں کے بھیدوں سے واقف ہے۔ (المائدۃ:8) 2۔ اور جب فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کا فیصلہ کرو۔ (النساء :58) 3۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان عدل و انصاف کا فیصلہ کروں۔ (الشوریٰ:15) 4۔ اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کا فیصلہ کریں اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (المائدۃ:42) 5۔ کہہ دیجیے مجھے میرے رب نے انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ (الاعراف :29) 6۔ جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان عدل سے فیصلہ کریں۔ اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (الحجرات :9) 7۔ جب بات کرو تو عدل وانصاف کی کرو۔ ( الانعام :152) 8۔ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل وانصاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔ (النحل :90)