يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ
اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو (١) تمہارے لئے مویشی چوپائے حلال کئے گئے ہیں (٢) بجز ان کے جن کے نام پڑھ کر سنا دیئے جائیں گے (٣) مگر حالت احرام میں شکار کو حلال جاننے والے نہ بننا، یقیناً اللہ تعالیٰ جو چاہے حکم کرتا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : سورۃ النساء کا آغاز عام لوگوں کے خطاب سے ہوا۔ سورۃ المائدۃ کا آغاز مومنوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ایمان کا معنی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی ذات اور ان کے احکام کو تسلیم کرنا۔ جس کا مفہوم یہ ہوا کہ ” اے صاحب ایمان لوگو! تمہارا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ایک عہد ہے۔ لہٰذا اس عہد کی پاسداری کرو۔ عقود عقد کی جمع ہے۔ اس کا معنی ہے ” کسی سے پختہ عہد کرنا۔“ اس کی تین اقسام ہیں۔ 1۔ بندے کا اللہ تعالیٰ سے عہد۔ جو ایمان لانے کی صورت میں کرتا ہے۔ 2۔ انسان کا اپنے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد کرنا۔ 3۔ آدمی کا دوسرے کے ساتھ عہد کرنا۔ حاکم اور رعیت کا ایک دوسرے کے ساتھ، کسی خاندان کا دوسرے خاندان اور ایک قوم کا دوسری قوم کے ساتھ عہد کرنا عقود میں شامل ہے میاں بیوی کے نکاح کے لیے بھی قرآن مجید نے عقد کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کیونکہ نکاح میاں، بیوی کے درمیان ایک پختہ عہد ہے۔ یہ بات بھی عہد کی پاسداری میں شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو جانور حلال کیے ہیں۔ انھیں ہی کھایا جائے۔ سوائے ان کے جن کا شکار کرنا احرام کی حالت میں منع کیا گیا ہے۔ البتہ حدیث میں اس بات کی رخصت دی گئی کہ اگر محرم نے شکار کرنے میں کسی قسم کی معاونت نہ کی ہو تو وہ غیر محرم کا کیا ہوا شکار کھا سکتا ہے۔ احرام وہ لباس ہے جو عمرہ اور حج کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر میں حاضری دینے والوں کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ احرام اور بیت اللہ کی حاضری کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی شریعت کی عائد کردہ دوسری پابندیوں کے ساتھ شکار کرنے سے بھی اجتناب کرے۔ بہیمہ سے مراد وہ جانور ہیں جو گوشت کھانے کی بجائے زمین کی پیداوار سے خوراک حاصل کرتے ہیں۔ گوشت خور جنھیں عرف عام میں درندہ کہا جاتا ہے۔ ان کو حرام کرنے کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ جانور وحشی طبیعت کے ہوتے ہیں۔ جن کے کھانے سے انسان میں وحشت اور درندگی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ عہد کی پاسداری کا حکم دینے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے حکم جاری کرتا ہے۔ انسان کی طبیعت کھانے پینے میں کسی قسم کی پابندی کو اپنے لیے بوجھ تصور کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ہر چیز کے حرام، حلال کا فلسفہ جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ جب اسے اس چیز کا فلسفہ سمجھ نہیں آتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر لب کشائی کرنے کی جسارت کرتا ہے۔ جس سے یہ کہہ کر منع کیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال کرے اور جس کو چاہے حرام قرار دے۔ حرمت و حلت کا اختیار اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو بھی عطا نہیں فرمایا۔ (التحریم :1) اس لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ماننا ہی عہد کی پاسداری اور ایمان کا تقاضا ہے (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللَّہِ (ﷺ) إِلاَّ قَالَ لاَ إِیمَانَ لِمَنْ لاَ أَمَانَۃَ لَہُ وَلا دینَ لِمَنْ لاَ عَہْدَ لَہُ) [ مسند احمد،13: مسند انس بن مالک] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے ہمیں جب کبھی بھی خطبہ ارشاد فرمایا تو الفاظ ضرور ادا فرمائے کہ اس بندے کا ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور اس بندے کا دین نہیں جو وعدے کی پاسداری نہیں کرتا۔“ مسائل : 1۔ عہد کی پاسداری کرنی چاہیے۔ 2۔ حالت احرام میں شکار کرنا جائز نہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے فیصلے کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : ایفاء عہد کا حکم : 1۔ اللہ کے بندے وعدہ ایفاء کرتے ہیں۔ (البقرۃ:177) 2۔ اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کرو۔ (الانعام :152) 3۔ ایماندار اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا عہد پورا کرتے ہیں۔ (الرعد :20) 4۔ اللہ کے عہد کا ایفاء ضروری ہے۔ (النحل :91) 5۔ قیامت کے دن ایفائے عہد کے بارے میں سوال ہوگا۔ (الاسراء :34) 6۔ جو اللہ کا وعدہ پورا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ (البقرۃ:40)