وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ
اور ہم نے تم سے کہا کہ اس بستی میں (١) جاؤ اور جو کچھ جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو اور دروازے میں سجدے کرتے ہوئے گزرو (٢) اور زبان سے کہو (٣) ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔
فہم القرآن : (آیت 58 سے 59) ربط کلام : نواں احسان : دشمن پر غلبہ عطا فرمایا لیکن بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے ناشکری کی اور ظلم وزیادتی کا بازار گرم رکھا۔ بیت المقدس میں بنی اسرائیل کے داخل ہونے کے واقعہ کے بارے میں مفسرین کے دو نقطہ نگاہ ہیں۔ ایک مکتب فکر کا خیال ہے کہ ان کا داخلہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ہوا تھا اور دوسروں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قیادت میں بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے لیکن ٹھوس حقائق کی بنیاد پر اکثریت کا خیال یہ ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے۔ ” حطۃ“ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سر جھکائے اس سے معافی مانگتے ہوئے اور لوگوں کے ساتھ در گزر کا رویہ اختیار کرتے ہوئے داخل ہونا لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو یکسر تبدیل کردیا اور خدا فراموشی اور تکبر کا رویہ اختیار کر کے دنیا دار فاتحین کی طرح قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ کا مظاہرہ کیا جس کے بدلے میں ان پر طاعون کی بیماری مسلط کی گئی جس سے ان کی فتح کی خوشیاں غارت ہوئیں اور یہ ہزاروں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اللہ تعالیٰ ظالموں اور نافرمانوں کو ایسے بھی سزا دیا کرتا ہے۔ بظاہر بنی اسرائیل کا واقعہ بیان ہوا ہے لیکن اس میں ہر طاقت ور اور فاتح کے لیے ہدایت ہے کہ وہ متکبر اور ظالم بننے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے مفتوحہ قوم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ درگزر کا مظاہرہ کرے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}قَالَ قِیْلَ لِبَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ ﴿ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ﴾ فَدَخَلُوْا یَزْحَفُوْنَ عَلٰی أَسْتَاھِھِمْ فَبَدَّلُوْا وَقَالُوْا حِطَّۃٌ حَبَّۃٌ فِیْ شَعَرَۃٍ) (رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب وإذقلنا ادخلوا ھذہ القریۃ۔۔) ” حضرت ابوہریرہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو کہا گیا : (دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا اور بخشش مانگنا) تو وہ اپنی پیٹھوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور ” حطۃ“ کی جگہ ” حَبَّۃٌ فِیْ شَعَرَۃٍ“ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔“ (عَنْ أُسَامَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ {ﷺ}إِنَّ ہٰذَا الطَّاعُونَ رِجْزٌ سُلِّطَ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ أَوْ عَلٰی بَنِیْ إِسْرَائِیلَ فَإِذَاکَانَ بِأَرْضٍ فَلَا تَخْرُجُوْا مِنْہَا فِرَارًا مِّنْہُ وَإِذَاکَانَ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوہَا) (رواہ مسلم : کتاب السلام، باب الطاعون والطیرۃ والکھانۃ ونحوھا) ” حضرت اسامہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : طاعون کی بیماری وہ عذاب ہے جسے تم سے پہلے کسی قوم یا بنی اسرائیل پر مسلط کیا گیا تھا۔ جب طاعون کی بیماری کسی علاقے میں پھیلی ہوئی ہو تو اس بیماری کی وجہ سے وہاں سے نہ نکلو اور جب کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہو تو وہاں مت جاؤ۔“ رسول کریم {ﷺ}اور صحابہ کرام {رض}کا کردار فتح مکہ کے موقع پر ملاحظہ فرمائیں کہ جب آپ نے مکہ فتح کیا تو اتنی عاجزی اور انکساری کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے کہ آپ کا سر مبارک اس حد تک جھکا جا رہا تھا کہ آپ کی مبارک داڑھی سواری کے پلان کے ساتھ لگ رہی تھی اور آپ کی زبان اطہر سے اللہ تعالیٰ کے شکرانے کے الفاظ جاری تھے۔ اس موقع پر مجاہدین کو حکم صادر فرمایا کہ جو مخالف بیت اللہ یا ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو یا اپنے گھر کے کواڑ بند کرلے اس پر کسی قسم کی دست درازی نہیں کرنا یہاں تک کہ مکہ سے نکل جانے والوں کا بھی پیچھا کرنے سے منع فرمایا۔ (ابن ہشام) مسائل: 1۔ نیکی کرنے والوں کو اللہ زیادہ دیتا ہے۔ 2۔ ظالم اللہ کے احکام تبدیل کردیتے ہیں۔ 3۔ نافرمانوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ 4۔ فتح حاصل ہونے پر اللہ کا شکرادا کرنا چاہیے۔ 5۔ فتح حاصل ہونے پر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔ 6۔ فاتح کو مفتوح قوم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ درگزر کرنی چاہیے۔