سورة الاخلاص - آیت 1

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 4) ربط سورت : الاخلاص سے پہلے سورت اللّہب ہے جس میں توحید کے مخالفین میں سے ایک بڑے مخالف کی ہلاکت و بربادی کی اطلاع دی گئی ہے۔ اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ بالآخر دعوت توحید کے مخالف مٹ جائیں گے اور توحید خالص کا پرچار اور غلغلہ ہوگا۔ مفسرین نے اس سورت کے اور بھی نام تحریر فرمائے ہیں لیکن اس کا سب سے مشہور اور معتبر نام ” الاخلاص“ ہے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد اور قرآن کی مرکزی دعوت توحید ہے اسی لیے قرآن مجید کا آغاز فاتحہ سے ہوا جس کی ابتداء توحید سے کی گئی ہے اور قرآن مجید کا اختتام بھی توحید کی سورتوں سے کیا گیا ہے۔ اس سورت کے نزول کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ ایک دن قریش کے کچھ افراد نے نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر استفسار کیا (عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ الْمُشْرِکِینَ قَالُوا للنَّبِیِّ () یَا مُحَمَّدُ انْسُبْ لَنَا رَبَّکَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی ﴿قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ، اللَّہُ الصَّمَدُ، لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ﴾) (رواہ احمد : مسند ابی بن کعب) ” ابو العالیہ، ابی بن کعب سے بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کا ایک وفد آپ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتا ہے اے محمد (ﷺ) ! آپ جس رب پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں، اس کا نسب نامہ کیا ہے تاکہ ہمیں اس کی پہچان ہوجائے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے معبود پتھر، لوہے، تانبے اور مٹی وغیرہ کے بنے ہوتے ہیں، آپ کا معبود کس چیز سے بنا ہوا ہے اور اس کی شکل وصورت اور حسب نسب کیا ہے؟ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔“ یاد رہے کہ ہر دور کے مشرک اپنے اپنے انداز اور نظریات کے مطابق ” اللہ“ کی توحید کو ماننے اور اس کی عبادت کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں لیکن شرک میں ملوث لوگ توحید خالص کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے، حالانکہ قرآن مجید اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت توحید خالص ہے جسے اس سورت میں جامع الفاظ اور کھلے انداز میں بیان کیا گیا ہے، جو شخص ذاتی اور گروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر توحید خالص کو سمجھنے کی کوشش کرے گا وہ اس سے واضح، مختصر اور موثر انداز کہیں نہیں پائے گا۔ اس سورت میں توحید خالص بیان کرنے کے ساتھ ہرقسم کے شرک کی نفی کی گئی ہے، اس لیے اس سورت کا نام سورت الاخلا ص رکھا گیا۔ توحید کی عظمت کے پیش نظر سورۃ الاخلاص اس قدر عظیم ہے کہ نبی (ﷺ) نے اس کی تلاوت کو دس پاروں کی تلاوت کے برابر قرار دیا ہے : (عَنْ اَبِیْ الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اَیَعْجِزُ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّقْرَأَ فِیْ لَیْلَۃٍ ثُلُثَ الْقُرْاٰنِ قَالُوْا وَکَیْفَ یَقْرَأُ ثُلُثَ الْقُرْاٰنِ قَالَ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ یَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْاٰنِ) (رواہ مسلم : باب فضل قراء ۃ سورۃ الاخلاص) ” حضرت ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص ایک رات میں ایک تہائی قرآن تلاوت کرسکتا ہے؟ صحابہ (رض) نے عرض کی کہ ایک رات میں قرآن کا تیسرا حصہ کیسے پڑھا جا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ” قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ“ کی تلاوت کرنا ایک تہائی قرآن پڑھنے کے برابر ہے۔“ یاد رہے کہ صحابہ کرام (رض) کی اکثریت قرآن مجیدکی تلاوت صرف ثواب کے طور پر نہیں بلکہ غورفکر کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے اس لیے انہوں نے عرض کی کہ ایک رات میں دس پارے پڑھنے مشکل ہیں۔ نبی (ﷺ) کی سورت اخلاص کے ساتھ محبت۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ قَالَ مَا أُحْصِی مَا سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ () یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَفِی الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ صَلاَۃِ الفَجْرِ بِ ﴿قُلْ یَا أَیُّہَا الکَافِرُونَ﴾ وَ ﴿قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ﴾).(رواہ الترمذی، بَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَالقِرَاءَ ۃِ فیہِمَا) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں میں شمار نہیں کرسکتا میں نے کتنی مربتہ رسول اللہ (ﷺ) کو مغرب اور فجر کی سنتوں میں سورت کافرون اور سورت اخلاص پڑھتے ہوئے سنا ہے۔“ اس سورت میں توحید کی تمام اقسام بیان کی گئی ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد تین ہیں۔ توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لانا۔ باقی مسائل اور احکام انہی عنوانات کا تقاضا اور تفصیل ہیں۔ فہم القرآن: میں لفظِ ” قُلْ“ کی تفسیر میں یہ بات عرض ہوچکی ہے کہ قرآن مجید اہم مسائل اور احکام بیان کرتے ہوئے لفظِ ” قُلْ“ سے آغاز کرتا ہے تاکہ سننے والے کو مسئلے کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا احساس ہوجائے۔ لفظِ قل میں یہ مفہوم واضح ہے کہ توحید کا پرچار کسی خوف کے بغیر کرنا چاہیے، بصورت دیگر اس کے ابلاغ کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ ارشاد ہوا کہ آپ اعلان کریں کہ وہ ” اللہ“ ایک ہے عربی زبان میں ” ھُوَ“ کی ضمیر (Pronown) دور کے لیے استعمال ہوتی ہے یہاں اس کے استعمال کے تین بڑے مفہوم سمجھ آتے ہیں۔ 1۔ اہل مکہ اور ہر دور کے مشرک مشکل ترین وقت میں اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے اور اسے ہی پکارتے تھے، اس لیے ” ھُوَ“ کی ضمیر استعمال کی گئی ہے کہ وہ ” اللہ“ جسے تم بھی مشکل کے وقت ایک مانتے اور پکارتے ہو وہ اپنی ذات، صفات اور الوہیت کے اعتبار سے ایک ہے۔ 2۔ جس ” اللہ“ کا تعارف چاہتے ہو وہ اپنی ذات، صفات اور الوہیت میں اکیلا ہے۔ 3۔ ” ھُوَ“ لا کر ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود نہیں بلکہ وہ اپنی شان کے مطابق عرش معلی پر جلوہ افروز ہے۔ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ (طٰہٰ:5) ” وہ رحمٰن عرش پر مستویٰ ہے۔“ اسم اللہ کی جلالت : ” اللہ“ کا نام صرف اور صرف ذات کبریا کے لیے زیبا اور اس کے لیے مختص ہے۔ یہ ذات کبریا کا ذاتی نام ہے اس اسم مبارک کے اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصہ یہ ہے کہ کائنات میں انتہادرجے کے کافر، مشرک اور بدترین باغی انسان گزرے ہیں، جن میں اپنے آپ کو داتا، مشکل کشا، موت وحیات کا مالک کہنے والے حتی کہ ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی“ کہلوانے والا بھی ہوا ہے، مگر اس نام کی ہیبت و جلالت کی وجہ سے کوئی بھی اپنے آپ کو ” اللہ“ کہلوانے کی جرأت نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا۔ مکے کے مشرک اپنے بتوں کو سب کچھ مانتے اور کہتے تھے لیکن وہ ان کو ” اللہ“ کہنے کی جرأت نہیں کرسکے تھے۔ ” اللہ“ ہی انسان کا ازلی اقرار اور اس کی فطری آواز ہے یہ اسم مبارک اپنے آپ میں ربوبیّت، الوہیّت، مالکیت، جلالت وصمدیت، رحمن ورحیم کا ابدی اور سرمدی تصور لیے ہوئے ہے۔ قرآن مجید میں ” اللہ“ کا نام 2697 مرتبہ آیا ہے اور ہر مرتبہ الگ انداز میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور عبادت کی ترجمانی کرتا ہے۔ اللّٰہُ اَحَدٌ اللہ ایک ہے اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ایک ہے۔ اس کی ذات، اسماء وصفات اور عبادت میں کوئی شریک نہیں گویا کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے ایک ہونے کے ساتھ اپنے حق عبادت میں بھی ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ” اَللّٰہُ اَحَدٌ“ میں ہر قسم کی توحید پائی جاتی ہے اور اس سے ہر قسم کے شرک کی نفی ہوتی ہے۔ کچھ مفسرین نے احد اور واحد کے استعمال میں فرق بیان کیا ہے۔ ایک مفسر کا خیال ہے کہ ” اللہ“ کی ذات کے لیے احد کی صفت لائی گئی ہے اور اس کی صفات کے لیے واحد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ دوسرے مفسرکا خیال ہے کہ احد کا معنٰی لاثانی، بے مثال اور یکتا ہے۔ اس لحاظ سے اس لفظ کا استعمال صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کا فرمان ہے کہ گنتی میں ایک، دو، تین، چار اور پانچ کے لیے واحد، اثنین، ثلاثہ، اربعہ اور خمسہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں کیونکہ گنتی میں احد کی بجائے واحد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ واحد استعمال کرنے کی بجائے احد (اکیلا) استعمال کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک اور اکیلے کے الفاظ میں لطیف سا فرق پایا جاتا ہے لیکن اردو اور عربی ادب سے آشنا لوگ جانتے ہیں کہ اردو زبان میں احد اور اکیلا ایک دوسرے کے ہم معنٰی ہیں اور عربی زبان میں معمولی سے فرق کے سوا احد اور واحدایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں البتہ جب کسی شخص کو دوسرے سے الگ بیان کرنا مقصود ہو تو اس کے لیے اکیلے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر احد اور واحد میں کوئی فرق نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی ذات کے بارے میں احد اور واحد دونوں الفاظ استعمال فرمائے ہیں : ﴿قُلْ اِنَّمَا اَنَا مُنْذِرٌ وَّمَا مِنْ اِِلٰہٍ اِِلَّا اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ﴾ (ص :65) ” اے نبی ان سے فرمادیں کہ میں تو بس خبردار کردینے والاہوں ” اللہ“ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے اکیلا ہے اور سب پر غالب ہے۔ ﴿وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾ (البقرۃ:163) ” تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ بڑا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔“ ذات باری تعالیٰ کے بارے میں ایرانیوں کا نظریہ : نزول اسلام کے وقت ایرانی ایک کی بجائے دو خدا مانتے اور پکارتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ خیر و برکت نازل کرنے اور عزت دینے والا خدا یزداں ہے، شر اور نقصان دینے والا اہرمن ہے۔ قرآن مجید اس نظریے کی تردید کرتا ہے : ﴿وَ قَال اللّٰہُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰہَیْنِ اثْنَیْنِ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاِیَّایَ فَارْہَبُوْنِ﴾ (النحل :51) ” اور اللہ نے فرمایا دو معبود نہ بناؤ وہ صرف ایک ہی معبود ہے، پس صرف مجھ ہی سے ڈرو۔“ اہل مکہ کئی الہٰوں کے قائل تھے : ﴿اَجَعَلَ الْآلِہَۃَ اِلٰہًا وَاحِدًا اِِنَّ ہٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ وَانطَلَقَ الْمَلاُ مِنْہُمْ اَنْ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰی آلِہَتِکُمْ اِِنَّ ہٰذَا لَشَیْءٌ یُرَادُ مَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِی الْمِلَّۃِ الْآخِرَۃِ اِنْ ہٰذَا اِِلَّا اخْتِلَاقٌ﴾ (ص : 5تا7) ” کیا اس نے تمام معبودوں کی جگہ بس ایک ہی معبود بنا لیا ہے۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ قوم کے سرداریہ کہتے ہوئے کھڑے ہوئے کہ لوگوں کو سمجھاؤ کہ اپنے معبودوں پر قائم رہو یہ بات تو کسی اور ہی مقصد کے لیے کہی جا رہی ہے۔ یہ بات ہم نے پہلے زمانہ میں کسی سے نہیں سنی یہ تو ایک بناوٹی بات ہے۔“ اس لیے اہل مکہ نے تین سو ساٹھ بت بیت اللہ میں رکھے ہوئے تھے۔ ہندوؤں کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہندو تینتیس کروڑ خداؤں کے قائل ہیں۔ یہی حال کلمہ پڑھنے والوں کی اکثریت کا ہے کہ اللہ کے سوا دوسروں سے مدد مانگتے ہیں۔ ﴿فَاِذَا رَکِبُوْافِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجّٰہُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ہُمْ یُشْرِکُوْنَ﴾ (العنکبوت :65) ” جب کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے مانگتے ہیں۔ جب اللہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک شرک کرنے لگتے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں ” اَحَدٌ“ کا لفظ استعمال فرما کر ایک سے زائد خداؤں اور معبودوں کی نفی کردی ہے۔ قرآن مجید نے عقلی اور علمی دلائل کی بنیاد پر ثابت کیا ہے کہ ایک ” اللہ“ ہی ” الٰہ واحد“ ہے۔ اس کے سوا کائنات میں کوئی الٰہ تھا اور نہ ہے اور نہ ہوگا۔ لہٰذا ” اَللّٰہُ اَحَدٌ“ میں اس کی ذات اور صفات میں شرک کرنے والوں کی نفی کی گئی ہے۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ اللہ بے نیاز ہے اللہ تعالیٰ کی ” اَحَدْ“ کی صفت میں توحید کی تینوں اقسام پائی جاتی ہیں۔ تاہم تفصیل کے لیے الصّمد اور دوسری صفات کا ذکر کیا گیا ہے بالفاظ دیگر یہ صفات صفت ” اَحَدْ“ کی تفصیل ہیں۔ اہل زبان نے الصّمد کے بہت سے معانی ذکر کیے ہیں، تمام معانی کا خلاصہ یہ ہے۔ 1۔ الصّمد ایسی چٹان یا ذات جس کی مشکل کے وقت پناہ لی جائے۔ 2۔ الصّمد وہ ذات جس میں کسی قسم کا خلا اور ضعف نہ ہو۔ 3۔ الصّمد ایسی ذات جس کے وجود سے نہ کوئی چیز نکلتی ہو اور نہ کوئی چیز داخل ہوتی ہو۔ 4۔ الصّمد سے مراد ایسا سردار جو ہر اعتبار سے کامل اور اکمل ہو اور مشکل کے وقت اس کا سہارا لیا جائے۔ 5۔ الصّمد وہ ذات جس کے سب محتاج ہوں اور وہ کسی کی محتاج نہ ہو۔ مذکورہ بالا معانی کو سامنے رکھتے ہوئے مفسرین کی غالب اکثریت نے الصّمد کا معنٰی بے نیاز کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو ہر اعتبار سے بے نیاز ہے۔ بے نیاز کا یہ معنٰی نہیں کہ کہ اسے اپنی مخلوق کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ بے نیاز کا معنٰی ہے کہ وہ غنی ہے اور پوری مخلوق اس کی محتاج ہے۔ اگر ساری مخلوق مل کر بغاوت کردے تو اس کی ذات اور بادشاہت کو رائی کے دانے کے برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ اگر ساری مخلوق اس کی تابع فرمان ہوجائے تو اس کی بادشاہت میں اضافہ نہیں ہوسکتاکیونکہ وہ الصّمد ہے۔ الصّمد کا معنٰی ایسی ذات جو کسی کی محتاج نہ ہو اور باقی تمام اس کے محتاج ہوں جب وہ کسی کا محتاج نہیں اور باقی سب اس کے محتاج ہیں تو پھر عبادت بھی اسی کی کرنی چاہیے۔ جس کا صاف معنٰی ہے کہ وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے لہٰذا اسی ایک کی عبادت کرنی چاہیے یہی توحید الوہیّت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔ اس لیے ” اَللّٰہُ الصَّمَدُ“ میں دوسرے معبودوں کی نفی پائی جاتی ہے۔ ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء :25) ” ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی بندگی کرو۔“ ﴿وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَی اللّٰہُ وَ مِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ﴾ (النحل :36) ” اور یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ ان میں سے کچھ وہ تھے جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور کچھ وہ تھے جن پر گمراہی ثابت ہوگئی۔ پس زمین میں چل، پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا۔“ ﴿لَتَشْہَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِہَۃً اُخْرٰی قُلْ لَّآ اَشْہَدُ قُلْ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ﴾ (الانعام :19) فرما دیجیے میں یہ گواہی نہیں دیتا فرما دیجیے وہ تو صرف ایک ہی معبود ہے اور بے شک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک ٹھہراتے ہو۔“ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے یہودیوں کی ہرزہ سرائی : یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ” اللہ“ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیارات اپنے بیٹے عزیر (علیہ السلام) کو دے رکھے ہیں : ﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ یُضَاہِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ﴾ (التوبہ :30) ” اور یہودیوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ ان کی اپنی باتیں ہیں وہ ان لوگوں جیسی باتیں کرتے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا ” اللہ“ انہیں غارت کرے کہ یہ کدھربہکائے جارہے ہیں۔“ عیسائیوں کی یا وہ گوئی : ایرانیوں اور یہودیوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر عیسائی کہتے ہیں کہ ” اللہ“ مریم اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کو ملا کر خدا کی خدائی مکمل ہوتی ہے جسے وہ تثلیث کا نام دیتے ہیں۔ ان کے عقیدے کی یوں تردید کی گئی ہے : ﴿لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰہ النَّارُ وَ مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ﴾ (المائدۃ:72) ” بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ہی تو ہے جو مریم کا بیٹا ہے، حالانکہ مسیح نے کہا اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمہارا رب ہے۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شرک کرے یقیناً اس پر اللہ نے جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیں۔“ اہل مکہ کی کذب بیانی : ﴿اَمْ خَلَقْنَا الْمَلآئِکَۃَ اِنَاثًا وَہُمْ شَاہِدُوْنَ۔ اَلَا اِنَّہُمْ مِّنْ اِفْکِہِمْ لَیَقُوْلُوْنَ وَلَدَ اللّٰہُ وَاِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَ۔ اَصْطَفَی الْبَنَاتِ عَلَی الْبَنِیْنَ﴾ ( صافات : 150تا152) کیا ہم نے ملائکہ کو عورتیں بنایا ہے اور یہ اس وقت موجود تھے۔ سُن لو دراصل یہ لوگ جھوٹی باتیں کرتے ہیں۔ کہ ” اللہ“ اولاد رکھتا ہے یقیناً یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ کیا اللہ نے اپنے لیے بیٹوں کی بجائے بیٹیاں پسند کرلیں ہیں؟“ کلمہ پڑھنے والوں کی زبان درازی : دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص کروڑوں کی تعداد میں کلمہ پڑھنے والے حضرات یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی (ﷺ) اپنی ذات کے اعتبار سے ” اللہ“ کے نور کا حصہ ہیں اور یہی لوگ فوت شدگان کو خدا کی خدائی میں شریک سمجھتے ہیں یہاں تک کہ صوفیائے کرام نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا عقیدہ اپنا رکھا ہے۔ وحدت الوجود کا معنٰی ہے کہ کائنات کی شکلیں مختلف ہیں مگر حقیقت میں وہ سب ” اللہ“ ہیں۔ اس کے لیے بےدین صوفی ہمہ اوست کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ وحدت الشہود کا نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا الگ وجود ہے اور کائنات اس کا پرتو ہے وہ اس کے لیے ہمہ از اوست کے الفاظ استعمال کرتے ہیں یعنی سب کچھ اسی سے نکلا ہے۔ اسی عقیدے کا تسلسل ہے کہ مساجد میں نبی (ﷺ) کے بارے میں ” یا نور اللہ“ کے الفاظ کہے جاتے ہیں۔ ﴿وَجَعَلُوْا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءًا اِنَّ الْاِِنسَانَ لَکَفُوْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ (الزخرف :15) ” اس کے باوجود لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان واضح طور پر ناشکرا ہے۔“ ﴿وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ باللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمْ مُّشْرِکُوْنَ﴾ (الیوسف :106) ” اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان لانے کے باوجود وہ شرک کرنے والے ہوتے ہیں۔“ حقیقت یہ ہے کہ کسی کو اللہ کا بیٹا یا جز قرار دینا سب سے بڑا گناہ اور جرم ہے۔ ﴿وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۔ لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا اِدًّا۔ تَکَاد السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا۔ اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ وَ مَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا﴾ (مریم : 88تا92) ” وہ کہتے ہیں کہ رحمٰن کی اولاد ہے۔ بہت ہی بیہودہ بات ہے جو تم لوگ کہہ رہے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس بات پر کہ انہوں نے رحمٰن کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ رحمان کی شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔“ ” اللہ“ اپنی ذات، صفات، عبادت اور حکم میں کسی شریک کو پسند نہیں کرتا : تمام انبیاء اور نبی آخر الزّمان (ﷺ) کی یہ دعوت تھی اور ہے کہ الٰہ نہ دو ہیں نہ تین اور نہ اس سے زیادہ۔ الٰہ صرف ایک ہے نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے اور اس کی صفات میں کوئی شریک اور نہ اس کا کوئی ہم مثل ہے، مشرکین نے اپنی طرف سے محض نام رکھ لیے ہیں۔ اس بنا پر کسی کو داتا کہتے ہیں، کسی کو دستگیر، مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حکم یہ ہے کہ اسے ایک مانو اور صرف اسی ایک کی عبادت کرو اور اسی کا حکم تسلیم کرو۔ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾ (الشوریٰ:11) ” کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔“ ﴿مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ (الیوسف :40) ” تم چند ناموں کے سوا عبادت نہیں کرتے۔ جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کے بارے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ ﴿وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآئِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (الاعراف :180) ” اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں سو اسے انہی کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں انہیں جلد ہی اس کی سزا دی جائے گی جو وہ کیا کرتے تھے۔“ ﴿وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا﴾ (النساء :36) ” اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔“ ﴿قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا﴾ (الکہف :110) ” اے نبی فرمادیں میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہے۔ اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور عبادت میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔“ ﴿مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا﴾ (الکھف :26) ” نہ اس کے سوا ان کا کوئی مددگار ہے اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے۔“