أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ
کیا تو نے دیکھا جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے (١)۔
فہم القرآن: (آیت 1 سے 7) ربط سورت : قریش کی ناشکری اور کفر و شرک کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ وہ قیامت کی جواب دہی کے عقیدہ پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ” اَلدِّیْنِ“ کا لفظ قرآن مجید نے کئی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ سیاق وسباق کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں ” اَلدِّیْنِ“ کا لفظ قیامت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ارشاد ہوا کہ کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو قیامت کو جھٹلاتا ہے یہ ایسا شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ یاد رہے کہ جس شخص کا قیامت پر ایمان نہیں ہوتا وہ نیکی اس جذبے کے ساتھ نہیں کرتا کہ مرنے کے بعد اسے اس کا اجر دیا جائے گا۔ ایسا شخص مال کی محبت میں دوسرے لوگوں سے سخت اور حریص ہوتا ہے وہ ایسی جگہ پر مال خرچ نہیں کرتا جہاں اسے کسی مفاد کے حصول کی توقع نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ اس شخص کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپ ایسے شخص کے کردار کو نہیں جانتے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور دوسرے کو مسکین کو کھانا کھلانے کی تلقین نہیں کرتا۔ یہاں مسکین کو خود کھانانہ کھلانے کی بجائے دوسرے کو ترغیب نہ دینے کی بات کی گئی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آدمی کو نہ صرف خود یتیم اور مسکین کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے بلکہ دوسروں کو بھی ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ جس معاشرے میں یتیم کو دھکے دیئے جائیں اور مسکین بھوکے پھریں وہ معاشرہ اعتقاداً یا عملاً قیامت کا منکر ہوتا ہے اور باہمی محبت سے محروم ہوجاتا ہے اس سے نفرتیں جنم لیتی ہیں، جس معاشرے میں نفرتیں ایک حد سے آگے بڑھ جائیں، وہ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور بالآخر اس قوم کا وجود باقی نہیں رہتا۔ ایسے معاشرے اور قوم کودنیا میں بھی اپنے کیے کی سزا ملتی ہے اور آخرت میں بھی اس سے مسؤلیّت ہوگی۔ اعتقاداً یا عملاً قیامت کی تکذیب کرنے والے شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اس کے دل میں نماز پڑھنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا اگر عادتاً یا ماحول کی مجبوری سے اسے نماز پڑھنی پڑے تو وہ نماز سے بے خبر ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ عادتاً یا لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں اس لیے ایسے لوگ اخلاقی اعتبار سے اس قدر گرے ہوئے ہوتے ہیں کہ اپنے عزیز و اقرباء اور اڑوس پڑوس میں برتنے کے لیے معمولی چیز بھی کسی کو نہیں دیتے۔ مثلاً ماچس، نمک، مرچ، استعمال کرنے کے لیے چھری، کلہاڑی، سائیکل اور انتہائی مجبوری کے وقت اپنی گاڑی پر کسی کو سوار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔” ساھون“ کے مفسرین نے چار مفہوم ذکر کیے ہیں۔ 1۔ نماز پڑھنا مگر اکثر اوقات نماز کے مقصد سے بے خبررہنا۔ 2۔ وقت پر نماز ادا کرنے کی بجائے بے وقت اٹھنا اور جلدی جلدی ٹھونگے مارنا۔ 3۔ پانچ نمازیں پڑھنے کی بجائے کچھ کو چھوڑ دینا۔ ٤۔ کلیتاً نماز کی ادائیگی سے غافل رہنا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) بَعَثَ مُعَاذًا إِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ اُدْعُھُمْ إِلٰی شَھَادَۃِ أَنْ لَّاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً فِیْ أَمْوَالِھِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِھِمْ) (رواہ البخاری : کتاب الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے حضرت معاذ (رض) کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا کہ یمن والوں کو دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ آپ کی بات مان لیں تو انہیں بتلائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائے گی۔“ (عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہ (ﷺ) یَقُولُ لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَشْبَعُ وَجَارُہُ جَائِعٌ إِلَی جَنْبِہِ) (رواہ البیھیقی : باب صاحِبِ الْمَالِ لاَ یَمْنَعُ الْمُضْطَرَّ فَضْلاً إِنْ کَانَ عِنْدَہُ) ” حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (ﷺ) کو فرماتے سنا۔ وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جس نے سیر ہو کر کھایا لیکن اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا رہا۔“ (عَنْ سَہْلٍ (رض) قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِی الْجَنَّۃِ ہَکَذَا وَأَشَار بالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی، وَفَرَّجَ بَیْنَہُمَا شَیْئًا) (رواہ البخاری : باب فضل من یعول یتیما) ” حضرت سہل (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ نے شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور ان کے درمیان تھوڑا سافاصلہ رکھا۔“ ( عَنْ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِیّ قَالَ قَالَ (ﷺ) إِذَا اشْتَرَی أَحَدُکُمْ لَحْمًا فَلْیُکْثِرْ مَرَقَتَہُ فَإِنْ لَمْ یَجِدْ لَحْمًا أَصَابَ مَرَقَۃً وَہُوَ أَحَدُ اللَّحْمَیْنِ) (رواہ الترمذی : بَابُ مَا جَاءَ فِی إِکْثَارِ مَاءِ الْمَرَقَۃِ، ہَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ) ” حضرت عبداللہ مزنی بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی گوشت پکائے تو اس کا شوربا زیادہ بنائے کیونکہ اگر گوشت کم ہوجائے تو شوربا میسر ہوگا اور شوربا بھی گوشت کا حصہ ہے۔“ الدّین سے مراد : قانون (یوسف :76)، اطاعت (الزمر : 1تا3)، نظام حکومت (المومن :26)، دین (مذہب) (التوبہ :29) قیامت کے دن (الانفطار : 10تا 19، الفاتحہ :3) مزید تفصیل کے لیے ایک مرتبہ پھر البیّنہ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل: 1۔ جو شخص یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا وہ اعتقاداً یا عملاً قیامت کو جھٹلاتا ہے۔ 2۔ ان نمازیوں کے لیے بربادی ہے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔ 3۔ وہ شخص بھی برباد ہوگا جو دکھلاوے کے لیے نماز ادا کرتا ہے۔ 4۔ اس شخص کے لیے ہلاکت ہوگی جو استعمال کے لیے معمولی چیزیں بھی ضرورت مند کو نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کو جھٹلانے والے کی سزا : 1۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور آخرت کو جھٹلانے والوں کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ (الاعراف :147) 2۔ آخرت کے منکروں کی خواہشات کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ( الانعام :151) 3۔ قیامت کے منکر حسرت وافسوس کا اظہار کریں گے۔ (الانعام :31) (الفرقان :11) 4۔ قیامت کے منکر ” اللہ“ کی رحمت سے مایوس ہوں گے۔ (العنکبوت :23) 5۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ (الحج :9) 6۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والے اور قیامت کو جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (الروم :16)