إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا
جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی (١)
فہم القرآن: (آیت 1 سے 5) ربط سورت : البیّنہ کا اختتام ان الفاظ پر ہوا کہ ” اللہ تعالیٰ“ ہر اس شخص پر راضی ہوگا جس نے اس سے ڈر کر زندگی بسر کی اللہ تعالیٰ کے ڈر کا حقیقی تقاضا ہے کہ انسان ہر دم قیامت کا عقیدہ تازہ رکھے جس دن کی ابتداء بڑے بڑے زلزلوں سے ہوگی۔ قرآن مجید نے یہ حقیقت بڑی تفصیل کے ساتھ بتلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب پہلی دفعہ اسرافیل صور میں پھونک مارے گا تو زمین و آسمانوں میں ایسا بھونچال آئے گا کہ بالآخر ہر چیز ختم ہوجائے گی۔ ایک مدّت کے بعد جس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں اس مدّت میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی باقی رہے گی۔ اسرافیل دوسری پھونک مارے گا تو ایک دفعہ پھر زمین پر زبردست زلزلے رونما ہوں گے جن سے زمین کو پوری طرح ہلا کر رکھ دیا جائے گا، پہلا صور پھونکنے پر زمین چٹیل میدان بن جائے گی اور دوسری دفعہ صور پھونکنے پرزمین اپنے اندر کے بوجھ باہر پھینک دے گی کیونکہ اسے رب تعالیٰ نے اس طرح کرنے کا حکم دیا ہوگا۔ ” اور جو کچھ زمین میں ہے اسے باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اس کے لیے یہی لازم ہے۔“ (الانشقاق :5) اکثر مفسرین کے نزدیک ” اَثْقَالَھَا“ سے مراد انسان اور اس کے اعمال ہیں، چنانچہ اگر کوئی انسان ڈوب کرمرا یا آگ میں جل کر راکھ ہوا، رب ذوالجلال کے حکم سے نہ صرف زمین انسان کے ذرّات کو باہر نکال دے گی بلکہ لوگ اس طرح زمین سے صحیح سالم نکلیں گے جس طرح مرنے سے پہلے تھے، نہ صرف انسان اپنے وجود کے ساتھ زمین سے نکلیں گے بلکہ جو کچھ اس دھرتی پر کرتے رہے۔ زمین اس کے پورے کے پورے ثبوت پیش کرے گی۔ ماضی میں سائنسی ترقی نہ ہونے کی وجو سے بے شمار لوگ اس بات پر گمراہ ہوئے کہ انسان کے اعمال کا کس طرح وزن کیا جاسکے گا کیونکہ اعمال کاٹھوس وجود نہیں ہوتا۔ لیکن سائنسی ترقی نے ایک حد تک یہ ثابت کردیا ہے کہ ہر چیز کا ایک وجود ہوتا ہے۔ قیامت کے دن انسان جونہی اپنا کیا کرایا دیکھے گا تو پکار اٹھے گا کہ زمین کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ ہر بات بیان کیے جا رہی ہے، ایسا اس لیے ہوگا کہ اسے اس کے رب کا حکم ہوگا۔ قیامت کے دن زمین ہر قسم کا ثبوت پیش کرنے کے ساتھ شہادت دے گی جس کا انکار کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوگا۔ ﴿اِنَّا اَنذَرْنٰکُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا﴾ (النبا :40) ” ہم نے تمہیں اس عذاب سے ڈرادیا ہے جو قریب آچکا ہے جس دن آدمی سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی بنا رہتا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَرَأَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) ہَذِہِ الآیَۃَ ﴿یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا﴾ قَالَ أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُہَا ؟ قَالُوا اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ أَخْبَارَہَا أَنْ تَشْہَدَ عَلَی کُلِّ عَبْدٍ أَوْ أَمَۃٍ بِمَا عَمِلَ عَلَی ظَہْرِہَا تَقُولُ عَمِلَ یَوْمَ کَذَا وَکَذَا فَہَذِہِ أَخْبَارُہَا) (رواہ الترمذی : باب ما جاء فی العرض، قال الترمذی ھٰذاحدیث حسن صحیح ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ﴿یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا﴾ پھر آپ نے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ زمین کی خبریں کیا ہوں گی؟ صحابہ نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا زمین کا خبر دینا یہ ہے کہ وہ ہر مرد اور عورت کے عمل کے متعلق گواہی دے گی جو اس نے زمین پر رہتے ہوئے کیا ہوگا۔ زمین کہے گی کہ اس نے فلاں دن فلاں عمل کیا، یہی اس کی خبریں ہوں گی۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دوسرے مرحلے میں زمین کو پوری طرح ہلاکر رکھ دیا جائے گا۔ 2۔ زمین اپنے سینے سے ہر قسم کا بوجھ نکال باہر کرے گی۔ 3۔ زمین اس دن انسان کے حق یا اس کے خلاف ہرقسم کی شہادت دے گی مجرم کہے گا کہ زمین کو کیا ہوگیا ہے ؟ 4۔ زمین ہر چیز اس لیے بیان کرے گی کیونکہ اسے اس کے رب کا حکم ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن انسان کے حق یا اس کے خلاف پیش ہونے والی شہادتیں : 1۔ قیامت کے دن ” اللہ“ پر جھوٹ باندھنے والوں کے خلاف گواہ پیش کیے جائیں گے۔ (ہود :18) (النور :24) (البقرۃ:143) (یٰس :65) (حٰم السجدۃ:20) ( البقرۃ:142) (الحج :78)