تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
اس میں (ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل علیہ السلام) اترتے ہیں۔ (١)
فہم القرآن: (آیت 4 سے 5) ربط کلام : لیلۃ القدر ایک ہزار مہینے سے افضل ہے اس میں حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) دوسرے ملائکہ کے ساتھ بنفس نفیس نزول فرماتے ہیں۔ القدر کا معنی تقدیر بھی ہے اس لیے یہ سورت اسم بامسمّیٰ ہے کیونکہ اس میں لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ رات اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بھر پورہوتی ہے۔ اس رات میں اپنے رب کے حکم کے مطابق مختلف امور کے لیے جبریل امین اور کثیر تعداد میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور یہ رات صبح طلوع ہونے تک سلامتی سے بھر پور ہوتی ہے۔ کچھ بزرگوں نے ضعیف روایات کی بنیاد پر شعبان کی پندرہویں رات کی یہ فضیلت بیان کی ہے۔ جس بنا پر بے شمار لوگ اس رات کو شب برأت کہتے ہیں حالانکہ شب برأت کا نام کسی حدیث میں نہیں پایا جاتا کیونکہ شب فارسی زبان کا لفظ ہے اور برأت کا عربی زبان کا لفظ ہے۔ لیلۃ القدر سے مراد وہی رات ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے اور قرآن مجید رمضان میں نازل ہوا۔ لہٰذا یہ رات پندرہویں شعبان کی بجائے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے جو لوگ شب برأت کو شب قدر کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ امت کو ہر سال خیر کثیر سے محروم رکھتے ہیں۔ ان دلائل کی روشنی میں شب برأت کی بجائے شب قدر کوہی فیصلوں کی رات ماننا چاہیے۔ کچھ صوفیائے کرام پوری رات کو خیر کی رات قرار دینے کی بجائے کہتے ہیں کہ اس رات میں قبولیت کا ایک لمحہ آتا ہے جس میں کی گئی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس رات کی نشانی یہ ہے کہ اس میں تھوڑی یا زیادہ بارش ضرور ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی (ﷺ) کو جب اس رات کی نشاندہی کی گئی تو اس رات بارش ہوئی تھی یہ اتفاق کی بات تھی لیلۃ القدر کی مستقل نشانی نہیں ہے۔ کیونکہ نبی (ﷺ) کے دور میں اور نہ ہی آپ کے بعد ہر سال اس رات بارش ہوئی اور نہ ہوتی ہے لہٰذا بارش ہونا اس رات کی نشانی نہیں اس کی نشانی یہ ہے کہ اس رات کی صبح کی روشنی اتنی تیز نہیں ہوتی جس قدر دوسرے دنوں کی روشنی تیز ہوتی ہے یہ نشانی بھی وہی شخص پہچان سکتا ہے جو پہلے سے اس بات کا تجربہ اور مشاہدہ رکھتاہو۔ اس رات کے بارے میں عام طور پر دوسوال کیے جاتے ہیں۔ 1۔ جب مکہ میں رات ہوتی ہے تو پوری دنیا میں رات نہیں ہوتی کہیں رات کا کچھ حصہ ہوتا ہے اور کہیں رات کی بجائے دن ہوتا ہے، ایسی صورت میں ان علاقوں میں لیلۃ القدر کو کس طرح تلاش کیا جائے۔ یہ سوال کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ یہ صورت حال نبی (ﷺ) کے دور میں بھی موجود تھی، لیکن نہ آپ (ﷺ) نے اس کی وضاحت فرمائی اور نہ صحابہ کرام (رض) نے یہ سوال کرنے کی ضرورت سمجھی۔ جس رب نے لیل ونہار کا نظام بنایا اور یہ سورت بنائی ہے۔ اسے سب معلوم تھا اور ہے لہٰذا ایسی باتیں بنانے کی بجائے رب رحیم کی رحمت پر یقین رکھنا چاہیے اور لیلۃ القدر اپنے اپنے ملک کی طاق راتوں میں تلاش کرنی چاہیے۔ تلاش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ضرور اجر دیتا ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ وہ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ 2۔ بعض علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ رات ہر رمضان میں بدل بدل کر آتی ہے یہ بات بھی صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ایک ہی رات اور یکبارگی نازل کیا گیا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ایک متعین رات ہے جس میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کے بدل بدل کر آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ بات حدیث اور کسی صحابی کے قول سے ثابت ہوتی ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ رات رمضان کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ اس رات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ (ﷺ) اس کے بارے میں آپ (ﷺ) پوری طرح نہیں جانتے کہ اس میں کیا کیا فیصلے کیے جاتے ہیں ؟ جب نبی معظم (ﷺ) کو یہ بات فرما دی گئی ہے کہ آپ پوری طرح نہیں جانتے تو ہم کون ہوتے ہیں کہ لیلۃ القدر اور اس کی نشانیوں کو دو اور دو چار کی طرح بیان کریں، ہمارا کام اس رات میں عبادت کرنا ہے لہٰذا ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے۔ (عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ) (رواہ البخاری : باب تحری لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الأواخر) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“ اس رات کا افضل ترین ذکر : (اَللّٰھُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ) (مشکوٰۃ : کتاب الصوم) ” اے اللہ تو معاف کرنے والا اور معافی کو پسند کرتا ہے اس لیے مجھے معاف فرما۔“ اعتکاف : انسان کی جبلّت میں یہ بات موجود ہے کہ جب بھی اسے کوئی پریشانی یا مشکل مسئلہ در پیش ہو تو وہ تنہائی پسند کرتا ہے تاکہ پیش آمدہ مسئلے کا حل سکون کے ساتھ سوچ سکے۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جس میں یکسوئی اور خلوت کو خصوصی مقام حاصل نہ ہو۔ ہر زمانے میں تزکیہ نفس اور روحانی بلندیوں کے حصول کے لیے لوگ غاروں اور جنگلوں میں جا کر چلہ کشی کرتے رہے ہیں کچھ لوگ تو ہمیشہ کے لیے وہاں کے ہو کر رہ گئے۔ اسلام نے تارک الدنیا ہو کر رہبانیت اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی البتہ اس فطری ضرورت کا لحاظ اور روحانی بلندیوں کے حصول کے لیے اعتکاف کی ترغیب دی ہے۔ جس میں تنہائی بھی ہے اور لوگوں کے ساتھ باجماعت نماز اور جمعہ ادا کرنے کی صورت اجتماعیت بھی پائی جاتی ہے گویا کہ اعتکاف کرنے والا اپنی انفرادی عبادت کے ساتھ اجتماعی عبادت میں بھی شریک ہوتا ہے۔ نبی (ﷺ) کو تنہا بیٹھ کر ذکر کرنا بہت پسند تھا آپ (ﷺ) غار حرا میں تنہائی میں ذکر ہی کر رہے تھے کہ ” اقرا“ کا پیغام آیا۔ امام بخاری (رض) نے ان الفاظ میں اس کا تذکرہ کیا ہے : (ثُمَّ حُبِّبَ إِلَیْہِ الْخَلَاءُ وَکَانَ یَخْلُوْ بِغَارِ حِرَاءَ فَیَتَحَنَّثُ فِیْہِ وَھُوَ التَّعَبُّدُ الَّلیالِی ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ اَنْ یَنْزِعَ إِلٰی اَھْلِہٖ وَیَتَزَوَّدُ لِذٰلِکَ ثُمَّ یَرْجِعُ إِلٰی خَدِیْجَۃَ فَیَتَزَوَّدُ لِمِثْلِھَا حَتّٰی جَاءَ ہُ الْحَقُّ وَھُوَ فِیْ غَارِ حِرَاءَ فَجَاءَ ہُ الْمَلَکُ فَقَالَ اِقْرَأ) (رواہ البخاری : کتاب کیف کان بدء الوجی) ” پھر آپ (ﷺ) خلوت پسند ہوگئے اور آپ غار حرا میں کئی شب وروز سوچ بچار کرتے رہتے اور اس وقت آپ کی یہی عبادت ہوا کرتی تھی جب کھانے پینے کا سامان ختم ہوجاتا تو گھر سے دوبارہ لے جاتے یہاں تک کہ غار حرا میں آپ (ﷺ) کے پاس جبریل امین (علیہ السلام) حق لے کر آئے۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِذَا اَرَادَ اَنْ یَّعْتَکِفَ صَلَّی الْفَجْرَ ثُمَّ دَخَلَ فِیْ مُعْتَکَفِہٖ) (رواہ ابوداؤد، ابن ماجۃ، مشکوۃ: باب الاعتکاف) ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) جب اعتکاف بیٹھنے کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھ کر جاتے اعتکاف میں داخل ہوتے۔“ ( آپ (ﷺ) اکیسویں رات مسجد میں جاگتے اور اگلی صبح اعتکاف کے خیمے میں تشریف لے جاتے۔) (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ اَلسُّنَّۃُ عَلَی الْمُعْتَکِفِ اَنْ لَّا یَعُوْدَ مَرِیْضًا وَلَا یَشْھَدَ جَنَازَۃً وَلَا یَمَسَّ اِمْرَاۃً وَلَا یُبَاشِرُھَا وَلَا یَخْرُجُ لِحَاجَۃٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّمِنْہُ وَلَا اِعْتِکَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ وَلَا اِعْتِکَافَ إِلَّا فِیْ مَسْجِدِ جَامِعٍ) (مشکوٰۃ: باب الاعتکاف قال البانی حسن صحیح) ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں اعتکاف کرنے والے کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ بیمارپرسی‘ جنازے میں شرکت، بیوی سے مباشرت سے اجتناب کرے اور اعتکاف سے ضروری کام (یعنی قضائے حاجت، فرض غسل وغیرہ) کے بغیر نہ نکلے۔ اعتکاف روزے کے ساتھ اور جامع مسجد میں ہوتا ہے۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) کَانَ یَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتّٰی تَوَفَّاہ اللّٰہُ ثُمَّ اعْتَکَفَ اَزْوَاجُہُ مِنْ بَعْدِہٖ) (رواہ مسلم : کتاب الاعتکاف، باب اعتکاف العشر الاواخر) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ (ﷺ) نے وفات پائی آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات (رض) اعتکاف کیا کرتی تھیں۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) اَنَّ عُمَرَ (رض) سَاَلَ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ کُنْتُ نَذَرْتُ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ اَنْ اَعْتَکِفَ لَیْلَۃً فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَالَ اَوْفِ لِنَذْرِکَ) (رواہ البخاری، مشکوٰۃ: باب الاعتکاف) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے نبی اکرم (ﷺ) سے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا تجھے اپنی نذر پوری کرنی چاہیے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ فِی الْمُعْتَکِفِ ھُوَ لَیَعْکِفُّ الذُّنُوْبَ وَیُجْزِئُ لَہُ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلِّھَا) (رواہ ابن ماجۃ، مشکوۃ: باب الاعتکاف، قال الالبانی ھٰذا حدیث ضعیف) ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا : اعتکاف کرنے والا گناہوں سے رکا رہتا ہے، اعتکاف کی وجہ سے جو نیکی وہ نہیں کرسکتا اللہ تعالیٰ اسے دوسروں کی نیکیوں کے برابر ثواب دے گا۔“ مسائل: 1۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ 2۔ شب قدر میں ہر کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ 3۔ شب قدر میں اپنے رب کے حکم پر جبریل امین اور ان کی معیت میں ہزاروں فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ 4۔ شب قدر غروب آفتاب سے طلوع فجر تک خیر وبرکت سے بھرپور ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن : قرآن مجید کا نزول اور سلامتی کی اہمیت : 1۔ رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ (البقرۃ:185) 2۔ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ (القدر :1) 3۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل :82) 4۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر :9) 5۔ جن و انس مل کراس قرآن جیسا قرآن نہیں لاسکتے۔ (بنی اسرائیل :88) 6۔ مومنوں کے لیے سلامتی والا گھر ہے اور اللہ ان کا دوست ہوگا۔ (الانعام :127) 7۔ فرشتے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (النحل :32)