وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے۔ (١)
فہم القرآن : ربط کلام : سنگین جرم معاف کرتے ہوئے پانچواں احسان۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور سے اتر کر اپنی قوم کی طرف آئے تو انہوں نے بچھڑے کو جلا کر دریا میں پھینک دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جن لوگوں نے شرک کا ارتکاب کیا ہے ان کے رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل کردیں۔ یہی تمہاری توبہ ہے اور یہی توبہ کا طریقہ تمہارے رب کے ہاں مقبول ہے۔ جب مشرک ہزاروں کی تعداد میں قتل ہوچکے تو اللہ کی بار گاہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی معافی کی درخواست پیش کی جس کو قبول کرتے ہوئے رب کریم نے باقی ماندہ لوگوں کی توبہ قبول فرمائی کیونکہ اللہ تائب ہونے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ بنی اسرائیل کے مشرکوں کو ختم کرنے اور ایمانداروں کے ایمان کو پرکھنے کے لیے توبہ کا یہ طریقہ اس لیے مقرر کیا گیا تاکہ لوگ شرک کے بدترین گناہ اور اس کی سنگینی سے آگاہ ہوں اور آئندہ شرک کرنے کا تصور بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہو سکے۔ توبہ کے متعلق نبی اکرم {ﷺ}کے ارشادات : 1۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی {رض}عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}قَالَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہٗ باللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْءُ النَّھَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہٗ بالنَّھَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْءُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا) (رواہ مسلم : کتاب التوبۃ، باب قبول التوبۃ من الذنوب وإن تکررت الذنوب والتوبۃ) ” حضرت ابوموسیٰ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : یقیناً اللہ عزوجل رات کو اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تاکہ دن کو خطائیں کرنے والا توبہ کرلے اور دن کو ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے یہ سلسلہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک جاری رہے گا۔“ 2۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {ﷺ}التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکرا لتوبۃ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی پاک ہوجاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔“ 3۔ (قَالَ رَسُول اللَّہِ {ﷺ}اَللّٰہُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ حینَ یَتُوبُ إِلَیْہِ مِنْ أَحَدِکُمْ کَانَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ بِأَرْضِ فَلَاۃٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ وَعَلَیْہَا طَعَامُہٗ وَشَرَابُہٗ فَأَیِسَ مِنْہَا فَأَتٰی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِی ظِلِّہَا قَدْ أَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِہٖ فَبَیْنَا ہُوَکَذَلِکَ إِذَا ہُوَ بِہَا قَائِمَۃً عِنْدَہٗ فَأَخَذَ بِخِطَامِہَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ اللّٰہُمَّ أَنْتَ عَبْدِیْ وَأَنَا رَبُّکَ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ) (رواہ مسلم : کتاب التوبۃ، باب فی الحض علی التوبۃ والفرح بھا) ” رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : جب بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے توبہ کرنے پر اس بندے سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جو چٹیل میدان میں اپنی سواری پر تھا اور اس کی سواری گم ہوگئی جس پر اس کا کھانا، پینا تھا۔ وہ سواری اور زندگی سے ناامید ہو کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ اچانک اس کی سواری مل گئی وہ خوشی میں آکر غلطی سے یہ بات کہہ دیتا ہے کہ : اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔“ مسائل: 1۔ شرک کرنے والا اپنے اپ پر ظلم کرتا ہے۔ 2۔ ہر دم اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن: توبہ کی اہمیت : 1۔ توبہ کرنا مومن کا شیوہ ہے۔ (التوبۃ:112) 2۔ توبہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ:222) 3۔ توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ (البقرۃ:160) 4۔ توبہ کرنے والوں کے لیے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (المؤمن :7 تا 9) 5۔ توبہ کرنے والے کے گناہ نیکیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ (الفرقان :70) 6۔ توبہ کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (القصص :67)