إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ
لیکن جو لوگ ایمان لائے اور (پھر) نیک عمل کئے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔
فہم القرآن: ربط کلام : ذلّت اور پستی سے بچنے والے لوگوں کا کردار اور انعام۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا فرما کر اسے بہترین عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ذات باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہی ذات ہے جس نے موت اور زندگی بنائی تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہترین عمل کرتا ہے۔ (الملک :2) اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہ صرف بہترین عمل کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ اس کی سہولت کے لیے ہر دور میں انسانوں میں بہترین انسانوں کو اپنا رسول منتخب کیا اور انہیں لوگوں کے لیے نمونہ بنایا تاکہ وہ لوگوں کو بہترین تعلیم وتربیت سے آراستہ کریں ان میں آخری رسول حضرت محمد (ﷺ) ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہے : ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا﴾ (الاحزاب :21) ” حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے بشرطیکہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت کے بارے میں امید رکھتا ہو، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والا ہو۔“ بہترین عمل کرنے کے لیے بہترین نظریے یعنی عقیدے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے اس کی بھی وضاحت کردی ہے تاکہ انسان کو بہترین عقیدہ اور عمل اختیار کرنے میں کسی قسم کی دقّت پیش نہ آئے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر حقیقی ایمان لائیں گے اور اس کے حکم کے مطابق عمل کریں گے انہی کا ایمان اور عمل بہتر ہوگا، بہتر عمل کرنے والوں کو قیامت کے دن ایسا اجر عطا کیا جائے گا جس میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ بہترین عقیدہ اور عمل۔ ﴿وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (حمٓ السجدۃ:33) ” اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیے اور اقرار کیا کہ میں مسلمان ہوں۔“ ” اللہ“ سے احسن عمل کی توفیق مانگتے رہنا چاہیے : (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَخَذَ بِیَدِہِ وَقَالَ یَا مُعَاذُ وَاللَّہِ إِنِّیْ لَاُحِبُّکَ وَاللَّہِ إِنِّیْ لأُحِبُّکَ فَقَالَ أُوصِیْکَ یَا مُعَاذُ لاَ تَدَعَنَّ فِی دُبُرِکُلِّ صَلاَۃٍ تَقُوْلُ ” اللَّہُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ“ ) (رواہ أبوداوٗد : باب فی الإستغفار، قال البانی صحیح) ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (ﷺ) نے میرا ہاتھ پکڑا اور دو مرتبہ فرمایا اے معاذ! اللہ کی قسم میں تجھ سے محبت کرتا ہوں پھر فرمایا اے معاذ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر فرض نماز کے بعد یہ کلمات پڑھتے رہنا اور انہیں کبھی نہ چھوڑنا۔ الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ (عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاۃَ الْقُرَشِیِّ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَدْعُواللَّہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَاب الآخِرَۃِ) (رواہ احمد : مسند بسر بن ارطاۃ) ” حضرت بسر بن ارطاۃ قرشی (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا۔ اے اللہ ! ہمارے تمام معاملات کا انجام اچھا فرما اور ہمیں دنیا اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔“ (عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یَقُولُ ” اللَّہُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَاب النَّارِ“ ) (رواہ البخاری : باب ﴿وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا﴾) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) دعا کیا کرتے تھے۔” اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کرنا اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ فرما۔“ مسائل: 1۔ پختہ ایمان اور نیک اعمال کے ساتھ ہی قیامت کے دن نجات ممکن ہوگی۔ 2۔ آخرت کی کامیابی اتنی زیادہ ہوگی کہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ نیک اعمال کا صلہ دیتا ہے : 1۔ جو نیک اعمال کرتے رہے ہیں اللہ ان کا بدلہ دے گا۔ (الزمر :35) (الحج :50) 2۔ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (سبا :4) (الانفال :4)