وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ
قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی۔
فہم القرآن: (آیت 1 سے 5) ربط سورت : الم نشرح کے آخر میں ارشاد ہوا کہ جونہی فراغت میسر ہو تو آپ اپنے رب کو یاد کیا کریں۔ التّین کی ابتداء میں چار قسمیں اٹھانے کے بعد ہر انسان کو یہ بات باور کروائی ہے کہ جس طرح اسے بہترین شکل وصورت اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، اسی طرح انسان کو بہتر سے بہتر اعمال کی کوشش کرنی چاہیے۔ بہترین اعمال کا خلاصیہ یہ ہے کہ ہر حال میں اپنے رب کے حکم کو یاد رکھا جائے۔ رب کریم نے اس سورۃ مبارکہ میں انسان کو اس کے مقام اور مرتبے کا احساس دلانے کے لیے چار چیزوں کی قسمیں اٹھائی ہیں۔ انجیر اور زیتون کی قسمیں اٹھائیں جس میں انجیر اور زیتون کے فوائد کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ بیت المقدس اور اس کے گرد و پیش کے علاقے اور اس کی تاریخی حیثیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) اور بے شمار انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے اور اس علاقہ میں حق وباطل کے کئی معرکے ہوئے۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) نے اپنی اقوام کو وہی دعوت دی جس کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا کی گئی۔ جس میں اشارہ ہے کہ تورات کی جو دعوت ہے وہی قرآن مجید کی دعوت ہے اور اس پر عمل کرنا ہی انسان کی تخلیق کا اوّلین مقصد ہے۔ طور سیناء ایسا پہاڑ ہے جہاں موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے ہم کلام ہوئے۔ اس کے ساتھ یہودیوں کی ایک تاریخ وابستہ ہے۔ اس لیے طور سیناء کی قسم اٹھا کر یہودیوں کی پوری تاریخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مکہ معظمہ کی قسم اٹھائی گئی جسے امن کا شہر قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس میں بیت اللہ موجود ہے جو ہدایت کا مرکز ہونے کے ساتھ امن کا باعث ہے۔ اسی شہر میں نبی آخر الزّمان (ﷺ) کو مبعوث کیا گیا جن پر ایمان لانا اور اطاعت کرنا ہر شخص پر لازم ہے۔ اس طرح ان چار چیزوں کی قسمیں اٹھا کر حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور نبی۔ کی تاریخ، دعوت اور جدوجہد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ گویا کہ تین بڑے انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کی تاریخ کا حوالہ دے کر انسان کو یہ بات باور کروائی ہے کہ اے انسان! تجھے تیرے رب نے بہت ہی اچھی شکل وصورت کے ساتھ پیدا فرمایا اور تجھے بہترین صلاحیتوں کے ساتھ ہمکنار کیا ہے لہٰذا تجھے اپنا مقام و مرتبہ پہچاننا اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ قرآن مجید نے انسان کو کئی بار یہ بات یاد کروائی ہے کہ اے انسان تجھے اللہ تعالیٰ نے مسجود ملائکہ کا شرف عطا کرتے ہوئے زمین میں خلیفہ بنایا اور ہر چیز کو تیری خدمت پر لگا دیا ہے۔ زمین و آسمانوں کی ہر چیز تیرے لیے ہے اور تو ” اللہ“ کے لیے ہے۔ لیکن انسانوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے مرتبہ ومقام کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اپنے مقام سے اس قدر نیچے گر پڑتے ہیں کہ پوری مخلوق سے پست ہوجاتے ہیں، غور فرمائیں! کہ انسان ظلم کرنے پر اترتا ہے تو درندوں سے بڑا درندہ ثابت ہوتا ہے۔ بے حیائی کرنے پر آتا ہے تو ماں، بہن کے ساتھ منہ کالا کرلیتا ہے، غلاظت اختیار کرتا ہے تو تمام مخلوق سے زیادہ گندہ دکھائی دیتا ہے، بدعقیدہ بنتا ہے تو بچھو اور سانپ کی پوجا کرنے لگتا ہے گویا اس قدر اپنا مقام کھو بیٹھتا ہے کہ گھٹیا ترین مخلوق میں سب سے گھٹیا بن جاتا ہے۔ حالانکہ رب ذوالجلال کا حکم ہے کہ اے انسان! تجھے صرف میرے سامنے جھکنا اور میرا ہی حکم ماننا چاہیے۔ لیکن انسانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے اور اس کا حکم ماننے پر تیار نہیں جس کے نتیجے میں عام انسان تو درکنار کلمہ پڑھنے والے مسلمان بھی عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے حقیر سے حقیر تر دکھائی دیتے ہیں۔ ﴿لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ﴾ (الاعراف :179) ” ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ ان سے بدتر ہیں اور یہی لوگ غافل ہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے التین، زیتون، طور سیناء اور مکہ معظمہ کی قسم اٹھا کر ارشاد فرمایا کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی شکل وصورت میں پیدا فرمایا ہے۔ 2۔ بے شمار انسان اپنے عقیدہ اور کردار کی وجہ سے پوری مخلوق میں گھٹیا ترین بن جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد عظیم ترین اعزازات سے سرفراز فرمایا : 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا ہے۔ (ص :75) 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ:30) 3۔ آدم (علیہ السلام) سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ابلیس کو ہمیشہ کے لیے اپنی بارگاہ سے راندہ درگاہ اور لعنتی قرار دیا۔ (الحجر : 34، 35) 4۔ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو انسان کے لیے مسخر فرمایا۔ (الجا ثیہ :13) (الرحمن :4) (العلق :5)