أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ
کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا (١)
فہم القرآن: (آیت 1 سے 3) ربط سورت : والضحیٰ کا اختتام اس ارشاد پر ہوا کہ اپنے رب کی نعمت کو یاد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کی ذات پر بے انتہا نعمتوں کا نزول فرمایا جن میں سر فہرست تین نعمتیں ہیں، جن کا ذکر اس سورت میں کیا گیا ہے۔ 1۔ وحی حفظ کرنے، اسے سمجھنے، پھر اسے بیان کرنے کے لیے آپ (ﷺ) کا سینہ کھول دیا گیا۔ 2۔ پیغام نبوت کو من وعن لوگوں تک پہچانے کا عظیم بوجھ آپ (ﷺ) کے لیے بہت حد تک آسان کردیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے کام اور نام کو ہمیشہ کے لیے سربلند فرما دیا۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ ہر نیک کام کرنے سے پہلے اس کے لیے اسے انشراح صدر حاصل ہو، ایک داعی پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہوتا ہے کہ دعوت دینے اور نیک کام کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دے۔ داعی کا سینہ دعوت کے لیے کھول دیا جائے تو اس میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ جب پورے جذبہ کے ساتھ نیک کام کے لیے محنت کی جائے تو اس کے لیے مشکل آسان کردی جاتی ہے۔ انشراح صدر ایسی نعمت ہے جس کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی تھی۔ ﴿قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْلِیْٓ اَمْرِیْ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ﴾ (طٰہٰ: 25تا28) ” موسیٰ نے اپنے رب سے دعا کی کہ میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لیے آسان فرمادے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔“ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (ﷺ) پر انتہائی مہربانی فرماتے ہوئے آپ کے لیے آپ کا سینہ کھول دیا۔ اس سے پہلے آپ کی حالت یہ تھی کہ نبوت سے پہلے آپ اپنی قوم کے حالات دیکھ کر رنجیدہ خاطر رہتے تھے، جونہی آپ کی عمر چالیس سال کے قریب پہنچی تو قوم کے بارے میں آپ (ﷺ) کی فکر مندی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ آپ کئی کئی دن تک غار حرا میں خلوت نشین ہو کر اس بات پر غور وفکر کرتے کہ لوگوں کو کس طرح راہ راست پر لایا جائے۔ اسی سوچ میں متفکر تھے کہ ایک دن غار حرا میں جبریل امین آئے اور اس نے آپ (ﷺ) پر سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات نازل فرمائیں۔ اس کی تفصیل سورۃ العلق میں بیان کی گئی ہے۔ عقیدہ توحید کی بنیاد پر قوم کی اصلاح کرنا اتنا مشکل کام ہے کہ جس سے بڑھ کر کوئی کام مشکل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کی دعوت دینے کے لیے جتنے رسول مبعوث فرمائے وہ ظاہری اور جوہری صلاحیتوں کے حوالے سے اپنے اپنے دور کے عظیم اور منفرد انسان تھے۔ ان خوبیوں میں نبی (ﷺ) تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اور سب لوگوں سے زیادہ باصلاحیت اور ارفع تھے مگر قوم کی اصلاح اور توحید کی دعوت اس قدر مشکل کام تھا اور ہے کہ نبی آخر الزمان (ﷺ) بھی اس کام کو بڑا بھاری محسوس کرتے تھے۔ نبی (ﷺ) پر جونہی نبوت کی ذمہ داری عائد ہوئی تو آپ نے اس قدر جانفشانی کے ساتھ محنت فرمائی کہ بسا اوقات آپ اس قدر نڈھال ہوجاتے کہ قریب تھا کہ آپ کو کوئی تکلیف لاحق ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کے فکر و غم کو ہلکا کرنے کے لیے کئی بار ارشاد فرمایا کہ آپ ایک حد سے زیادہ فکر مند نہ ہوں کیونکہ ہم نے آپ کو لوگوں کے لیے مبلغ بنایا ہے نگران اور کو توال نہیں بنایا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور آپ کی محنت کے نتیجہ میں یہ وقت آیا کہ آپ کو اس قدر جانثار ساتھی ملے کہ جس سے آپ کا کام آسان ہوگیا جس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ہم نے آپ کا بوجھ ہلکا کردیا جو بوجھ آپ کی کمر توڑے جارہا تھا۔ ” حضرت معاویہ (رض) رسول اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔“ (رواہ البخاری : کتاب العلم) (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ (رض) قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَۃَ (رض) ہَلْ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یُصَلِّی وَہُوَ قَاعِدٌ قَالَتْ نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النّاسُ) (رواہ مسلم : باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا) ” حضرت عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پو چھا کیا نبی (ﷺ) بیٹھ کر بھی نماز پڑھا کرتے تھے ؟ ام المومنین (رض) نے فرمایا : ہاں لوگوں نے آپ کو بوڑھا کردیا تھا۔“ ” شاید آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے کہ وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔“ (الکہف :6) ﴿لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ﴾ (الشعراء :3) ” اے نبی شاید آپ اس غم میں اپنی جان کھودیں گے اس لیے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔“ ” اور اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا اور نہ آپ ان کے وکیل ہیں۔“ (الانعام :107) ” اے نبی نصیحت کیے جاؤ آپ نصیحت ہی کرنے والے ہیں۔ ان پر جبر کرنے والے نہیں۔“ (الغاشیہ : 21، 22) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے کام کے لیے آپ (ﷺ) کا سینہ کھول دیا۔