أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ
کیا اس نے یتیم پا کر جگہ نہیں دی (١)
فہم القرآن: (آیت 6 سے 8) ربط کلام : چوتھی اور پانچویں آیت میں نبی (ﷺ) کو یہ خوشخبری دی گئی کہ آپ کا مستقبل آپ کے ماضی اور حال سے بہت ہی اعلیٰ اور بہترین ہوگا۔ اس کے لیے آپ کے ماضی کے تین حوالے دیئے گئے ہیں۔ آپ (ﷺ) یتیم تھے ” اللہ“ نے آپ کو بہترین ٹھکانہ دیا۔ آپ (ﷺ) ہدایت کے بارے میں بے خبر تھے اس نے آپ کی راہنمائی فرمائی اور آپ کو پوری دنیا کا راہنما بنا دیا آپ (ﷺ) غریب تھے اس نے آپ کو غنی فرما دیا۔ اس انسان کی بے بسی اور لاچارگی کی انتہا ہوتی ہے جو پیدائش کے وقت یتیم ہونے کے ساتھ انتہائی غریب ہو اور اس کی راہنمائی کرنے والا بھی کوئی نہ ہو، ایسے بچے کا معاشرے میں اعلیٰ مقام پانا تو درکنار وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتا ہے۔ حضرت محمد (ﷺ) اپنی ابتدائی زندگی میں انہی مسائل: اور مصائب سے دوچار ہوئے لیکن خالقِ کائنات نے آپ (ﷺ) کو اپنے پیغام اور لوگوں کی راہنمائی کے لیے منتخب فرما لیاتھا۔ اس لیے آپ کے رب نے کسی مرحلے پر آپ کو غیروں کے سہارے پر نہیں چھوڑا۔ پیدا ہوئے تو آپ کا دادا سردار عبدالمطلب موجود تھا جس نے آپ کی اس طرح پرورش کی جس طرح کوئی دوسرا نہیں کرسکتا، سردارعبد المطلب دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کے چچا جناب ابوطالب نے زندگی بھر آپ کا ساتھ دیا کہ آپ کو یتیمی کا احساس نہیں ہونے دیا، جوانی میں قدم رکھا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی رفیقہ حیات عطا فرمائی جس نے سب کچھ آپ کے قدموں پر نچھاور کردیا، چالیس سال کے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ختم نبوت کے تاج سے سرفراز فرمایا اور پوری دنیا کا رہبر و راہنما بنایا اور آپ کو پہلے دن سے ایسے جانثار ساتھی عطا کیے کہ جنہوں نے اپنی جان سے آپ کو عزیز جانا۔ میدان جہاد میں قدم رکھا تو قدم پر قدم دشمن پر غالب آئے۔ انہی انعامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کیا آپ (ﷺ) نہیں جانتے کہ آپ یتیم تھے، ہم نے آپ کی سرپرستی کا بہترین انتظام کیا، آپ وسائل کے اعتبار سے کمزور تھے، ہم نے آپ کو وسائل سے مستغنی کردیا۔ آپ اپنے رب کی ہدایت سے بے خبر تھے، ہم نے آپ کو اقوام عالم کا راہنما بنا دیا۔ قرآن مجید نے اس موقع پر آپ (ﷺ) کے لیے ” ضَآلًّا“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا یہ معنٰی نہیں کہ آپ نبوت سے پہلے کسی برائی اور گمراہی میں مبتلا تھے۔ اس کا حقیقی معنٰی ہے کہ نبوت سے پہلے آپ کو علم نہیں تھا کہ آپ کیسے زندگی بسر کریں اور کس طرح لوگوں کی راہنمائی فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رحمت کے ساتھ مختص کرلیا جس بنا پر آپ کا ہر فرمان اور آپ کی زندگی کا ہر پہلو لوگوں کے لیے راہنما اصول ٹھہرا۔ یہاں تک کہ کسی موقع پر بتقاضا بشریت آپ سے بھول ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھی آپ کی امت کے لیے نمونہ اور اصول قرار دیا۔ ﴿وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوحًا مِنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِی مَا الْکِتٰبُ وَلاَ الْاِِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ﴾ (الشوریٰ:52) ” اے نبی اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی ہے آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے۔ ہم نے اس روح کو ایک روشنی بنا دیا ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھاتے ہیں۔ یقیناً آپ سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں۔“ ” اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو ان کی ایک جماعت نے تمہیں بہکانے کا ارادہ کر ہی لیا تھا۔ اور وہ نہیں گمراہ کرتے مگر اپنے آپ ہی کو اور یہ تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب و حکمت اتاری اور تمہیں وہ سکھایا ہے جسے تم نہیں جانتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کا تم پر بڑا فضل ہے۔“ (النساء :113) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو یتیمی میں بہترین سرپرست عطا فرمائے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ کی راہنمائی فرمائی بلکہ آپ کو رہتی دنیا تک اقوام عالم کا رسول اور راہنما بنا دیا۔ 3۔ آپ (ﷺ) بچپن میں غریب تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مستغنی کردیا۔ تفسیر بالقرآن : نبی (ﷺ) پر ” اللہ“ کے انعامات کی ایک جھلک : 1۔ آپ (ﷺ) کو پوری دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (الاعراف :158) 2۔ نبی (ﷺ) کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ (الانبیاء :107) 3۔ نبی (ﷺ) کو خاتم النبیین بنایا گیا ہے۔ (الاحزاب :40) 4۔ آپ کو پوری دنیا کے لیے داعی، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ (الاحزاب : 45، 46) 5۔ نبی کریم (ﷺ) کو تمام انسانوں کے لیے ر ؤف، رحیم بنایا گیا۔ (التوبہ :128) 6۔ آپ (ﷺ) کی بعثت مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (آل عمران :164)