وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَاسْتَغْنَىٰ
لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی۔ (١)
فہم القرآن: (آیت 8 سے 11) ربط کلام : اچھے فکر وعمل کا ذکر کرنے کے بعد منفی سوچ اور برے عمل کا بیان اور انجام۔ فہم القرآن: کا مطالعہ کرنے والے اصحاب یہ حقیقت بالیقین جانتے ہیں کہ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نیکی اور برائی کے درمیان فرق اور ان کے انجام کا بیک مقام پر ذکر کیا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا موقع پر فیصلہ کرپائے کہ اس نے کون سے کام اختیار کرنے ہیں اور کس راستے پر چلنا ہے۔ اسی اصول کے پیش نظر یہاں بھی قرآن مجید نے ایک ہی مقام پر مثبت فکرو عمل اور اس کے مقابلے میں منفی فکر وعمل کا ذکر اور ان کا انجام بیان کیا ہے۔ چنانچہ بتلایا ہے کہ جس نے بخل اختیار کیا اور اپنے رب کے خوف سے بے خوف ہوا اور اچھی بات کو جھٹلا یا اس کے لیے اس کا رب مشکل پیدا کرے گا، ایسا شخص تباہی کے گھاٹ اترے گا تو اس کا مال اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا، یہاں دو ایسے گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے جس کا مرتکب انسان سچائی کو جھٹلانے میں شرم محسوس نہیں کرتا، جب کسی انسان کے دل میں بخل بھر جائے تو بالیقین اس کا دل سخت ہوجاتا ہے۔ اسے کسی پر ترس نہیں آتا جسے کسی پر ترس نہ آئے اور اس کا دل سخت ہوجائے وہ اپنے رب کی ذات اور بات کی پرواہ نہیں کرتا اس کے سامنے سچ بات پیش کی جائے تو وہ زبان سے اقرار بھی کرتا ہے لیکن اس کا دل سچائی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کے لیے نیکی کے کام کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔ جس وجہ سے وہ صدقہ کرنے کو بوجھ سمجھتا ہے اور نماز پڑھنا اس کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب ایسے شخص کی گرفت کرتا ہے تو اس کا مال اس کے کچھ کام نہیں آتا، نہ صرف دنیا میں اس کا مال اس کے کام نہیں آتا بلکہ قیامت کے دن یہ مال اس کے لیے جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے گا۔ الحسنٰی کا معنٰی مفسرین نے اللہ کی توحید اور دین کیا ہے جس نے اس سے منہ موڑ لیا وہ دنیا میں خوشحالی پانے کے باوجود دل کی تنگی اور پریشانیوں سے بے قرار رہے گا۔ ” اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا کی گزران تنگ ہوگی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا پروردگار میں دنیا میں دیکھتا تھا اب مجھے اندھا کیوں اٹھایا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس لیے کہ جب ہماری آیات تیرے پاس آئیں تو نے انہیں بھلا دیا تھا۔ (طٰہٰ: 124تا126) (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ مَامِنْ یَوْمٍ یُّصْبِحُ الْعِبَادُ فِیْہِ إِلَّا مَلَکَانِ یَنْزِلَانِ فَیَقُوْلُ أَحَدُھُمَا اَللّٰھُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَیَقُوْلُ الْآخَرُ اللّٰھُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا) (رواہ البخاری : باب قول اللّٰہِ تعالیٰ ﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى﴾) ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک آواز دیتا ہے اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اور عطا فرما، دوسرا آواز لگاتا ہے اے اللہ! نہ خرچ کرنے والے کا مال ختم کردے۔“ ” ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات نکلا اور دیکھا کہ رسول اللہ (ﷺ) اکیلے جا رہے تھے آپ کے ساتھ کوئی نہیں تھا، میں نے سمجھا کہ آپ نے کسی کو اپنے ساتھ لے جانا پسند نہیں فرمایا۔ میں نے چاندنی رات میں آپ کے پیچھے پیچھے چلنا شروع کردیا۔ آپ نے موڑ کر دیکھا تو فرمایا : کون ہے؟ میں نے کہا ابو ذر! آپ (ﷺ) نے فرمایا : آؤ میرے ساتھ چلو! میں تھوڑی دیر آپ کے ساتھ چلتا رہا آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ دنیا میں زیادہ مال رکھنے والے قیامت کے دن کم مرتبے والے ہوں گے سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا۔ اس نے اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے خرچ کیا۔“ ( رواہ البخاری : باب الْمُکْثِرُونَ ہُمُ الْمُقِلُّونَ) مسائل: 1۔ جس نے بخل کیا اور نیکی سے لاپرواہی کی وہ مارا جائے گا۔ 2۔ جس نے الحسنیٰ کی تکذیب کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے تنگی پیدا کردے گا ایسے شخص کو اس کا مال کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ تفسیربالقرآن : بخل کرنے اور نیکی کی تکذیب کرنے والے کا انجام : 1۔ خزانے جمع کرنے والوں کو عذاب کی خوشخبری دیں۔ (التوبہ :34) 2۔ بخیل اپنا مال ہمیشہ باقی نہیں رکھ سکتا۔ (ھمزہ :3) 3۔ تباہی اس کے لیے جس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا۔ (الہمزہ :1) 4۔ بخیل کے مال کے ذریعے ہی اسے سزادی جائے گی۔ (التوبہ :35) 5۔ بخیل لوگ مال کو اپنے لیے خیر خیال کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کے لیے برا ہے۔ (آل عمران :180)