فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَاتَّقَىٰ
جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے رب سے)۔ (١)
فہم القرآن: (آیت 5 سے 7) ربط کلام : فکروعمل میں فرق اور نیک فکر وعمل کا دنیا میں فائدہ۔ فکرو عمل میں فرق سمجھانے کے لیے مختصر طور پر یہاں دو قسم کی سوچ اور اعمال بیان کیے گئے ہیں ایک وہ خوش قسمت ہے جس نے ” اللہ“ کے دیئے ہوئے مال کو اس کی رضا کے لیے خرچ کیا اور ہمیشہ بخل اور اپنے رب کی نافرمانی سے ڈرتا رہا اور اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور احکام کی دل کی گہرائی، زبان کی سچائی اور صالح عمل کے ساتھ اس کی تصدیق کرتا رہا اللہ تعالیٰ اس کے لیے نیکی کرنا مزید آسان کردیتا ہے جس بنا پر اس کے لیے صدقہ اور نیکی کرنا آسان ہوجاتے ہیں اس بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ﴿الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ (العنکبوت :69) ” جو لوگ ہمارے لیے محنت کریں گے ہم انہیں اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیک لوگوں کے ساتھ ہے۔“ ” جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کی کھیتی کو بڑھاتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے دنیا میں ہی دے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔“ (الشوریٰ:20) (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَثَلُ الْبَخِیْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَیْنِ عَلَیْھِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِیْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ اَیْدِیْھِمَا اِلٰی ثُدِیِّھِمَا وَتَرَاقِیْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ وَجَعَلَ الْبَخِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَاَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا) (رواہ البخاری : باب مَثَلِ الْمُتَصَدِّقِ وَالْبَخِیلِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا : بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے زرہ پہن رکھی ہو۔ اس کے ہاتھوں کو اس کی چھاتیوں اور سینے کے ساتھ جکڑ دیا گیا ہو۔ صدقہ دینے والا جب صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو زرہ کشادہ ہوجاتی ہے۔ بخیل جب صدقہ کرنے کا خیال کرتا ہے تو زرہ سمٹ جاتی اور ہر کڑی اپنی اپنی جگہ پر سخت ہوجاتی ہے۔“