سورة الليل - آیت 1

وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

قسم ہے رات کی جب چھا جائے، (١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 4) ربط سورت : الشمس کا اختتام اس بات پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے فسق وفجور کرنے والوں کو کس طرح پکڑا۔ سورۃ الّیل کی ابتداء میں تین قسمیں کھانے کے بعد بتلایا کہ ہم نے انسان کو مذکر اور مؤنث کی صورت میں پیدا کیا ہے، جس طرح جنس کے اعتبار سے انسان مختلف ہیں اسی طرح ان کی کوششیں بھی مختلف اور انجام بھی مختلف ہوں گے۔ اس سورت کا آغاز بھی تین قسموں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ رات کی قسم ! جب دن کی روشنی کو اپنی تاریکی میں چھپا لیتی ہے، دن کی قسم ! جب وہ رات کی تاریکی کو ختم کرنے کے بعد پوری طرح روشن ہوجاتا ہے اور اس ذات کی قسم ! جس نے نر اور مادہ یعنی مذّکر اور مؤنث پیدا کیے ہیں۔ جس طرح آپس میں رات اور دن متضاد ہیں، اس طرح جنس کے اعتبار سے مذکر اور مؤنث ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اسی طرح ہی تمہاری سوچ اور عمل ایک دوسرے سے جداجدا ہیں۔ انسان اور اس کا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے ذکر سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تین قسمیں اٹھائیں اور پھر انسان کو یہ حقیقت باور کروائی ہے کہ اے انسان! جس طرح رات اور دن میں فرق ہے، مذّکر اور مؤنث کے درمیان نہ ختم ہونے والی تقسیم ہے اسی طرح ہی تمہارے فکر وعمل میں فرق ہے۔ جس طرح رات اور دن اکٹھے نہیں ہو سکتے، مرد اور عورت ایک جنس نہیں بن سکتے اسی طرح ہی بری سوچ اور برا عمل، صحیح سوچ اور صالح عمل ایک نہیں ہو سکتے گویا کہ نیک اور بد برابر نہیں ہوسکتے اس بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ﴿اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ﴾ (صٓ:28) ” کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ان کو زمین میں فساد کرنے والوں کے برابر کردیں گے کیا متقین کے ساتھ ہم فاجروں جیسا سلوک کریں گے؟“