وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌ
بہت سے چہرے اس دن تروتازہ اور (آسودہ) حال ہونگے۔
فہم القرآن: (آیت 8 سے 16) ربط کلام : جہنمی کے مقابلے میں جنتی کا اکرام، مقام اور انعام۔ جہنمی اپنی ذلّت اور ناکامی کی وجہ سے تھکے تھکے دکھائی دیں گے اور ان پر انتہا درجے کی ذلّت چھائی ہوگی، ان کے مقابلے میں جنتی اپنے اعمال اور انعام دیکھ کر بے انتہا خوش ہوں گے اور ان کے چہروں پر شادمانی اور کامیابی کی مسکراہٹیں بکھر رہی ہوں گی انہیں اعلیٰ قسم کی جنت میں داخل کیا جائے گا۔ جنتی جنت میں کسی قسم کی آلودگی اور بے ہودگی نہیں پائیں گے، جنت میں چشمے اور آبشاریں جاری ہوں گی، جنت میں اعلیٰ قسم کے تخت اونچی جگہ پر رکھے جائیں گے، جنتی ان پر تشریف فرما ہوں گے، ان کے سامنے آبخورے ہوں گے، جنت کے تختوں پر قطار اندر قطار تکیے رکھے ہوں گے اور ان پر نفیس قسم کے قالین بچھے ہوئے ہوں گے۔ اس مقام پر جنت کی جن نعمتوں اور خوبیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک خوبی یہ ہوگی کہ جنت کا ماحول اتنا پاک صاف ہوگا کہ اس میں کسی قسم کی بے ہودگی نہیں پائی جائے گی۔ جنت کی اس خوبی کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ جنت میں داخل ہونے والے دنیا میں رہتے ہوئے کسی قسم کی بے حیائی اور لغویات پسند نہیں کرتے تھے، جب کبھی انہیں ایسے ماحول سے واسطہ پڑتا تو وہ اس سے دامن بچا کر گزر جاتے تھے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُوْنَ الزُّورَ وَاِذَا مَرُّوا باللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا﴾ (الفرقان :72) ” الرحمن کے بندے وہ ہیں جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور کسی بے ہودہ کام سے گزرہو تو شرافت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔“ ﴿وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ﴾ (المومنون :3) ” مومن لغو سے بچتے ہیں۔“ جنت کی اس صفت کا ذکر کرنے کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے کئی بار شراب اور شباب کا ذکر کیا ہے۔ اس سے یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ جنت میں ہر قسم کی آزادی، شراب اور شباب ہوگا تو پھر اس میں لغو اور بے ہودگی کا امکان بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے وضاحت کردی گئی کہ شراب، شباب ہر قسم کی نعمتیں اور آزادی ہونے کے باوجود جنت میں کسی قسم کی آلودگی اور بے ہودگی نہیں پائی جائے گی۔ جنت اور اس کا ماحول اس قدر پاک اور شفاف ہوگا کہ جس کا تصور ہی ہمارے ذہن میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) قَال اللّٰہُ أَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ فَاقْرَءُ وْا إِنْ شِئْتُمْ ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ﴾) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے جو کچھ تیار کیا ہے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں خیال پیدا ہوسکتا ہے چاہو تو اللہ کا فرمان پڑھو۔ ” کوئی نہیں جانتا کہ جنتی کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا پوشیدہ رکھا گیا ہے۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن جنتی کے چہرے خوش ہوں گے اور وہ اپنی کوشش پر راضی ہوں گے۔ 2۔ جنتی میں جنت کسی قسم کی بے ہودہ بات نہیں سنیں گے۔ 3۔ جنت میں چشمے جاری ہوں گے اور قرینے کے ساتھ آبخورے ر کھے ہوں گے اور جنت میں جنتی اونچے مقامات پر جلوہ افروز ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن : جنت کے قالین، تکیے اور آبخورے : 1۔ اللہ کے مخلص بندے نعمتوں والی جنت میں ہوں گے ایک دوسرے کے سامنے تختوں پربیٹھے ہونگے۔ (الصٰفٰت : 43، 44) 2۔ پرہیزگاروں کے لیے عمدہ مقام ہے۔ ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے اور ان میں تکیے لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (ص : 49تا50) 3۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمن :76) 4۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : 47، 48)