سورة النسآء - آیت 107

وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنفُسَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ان کی طرف سے جھگڑا نہ کرو جو خود اپنی ہی خیانت کرتے ہیں، یقیناً دغا باز گناہگار اللہ تعالیٰ کو اچھا نہیں لگتا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 107 سے 108) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں پیش ہونے والے مقدمہ کی روئیداد اس طرح ہے کہ انصار قبیلہ کے بنی ظفر خاندان میں سے ایک شخص نے انصاری کے گھر سے آٹے کی بوری اور ایک زرہ چوری کرلی۔ جب اس کا کھوج شروع ہوا تو اس نے اپنے آپ کو الزام سے بچانے کے لیے چوری کا سامان ایک یہودی کے گھر میں امانت رکھ دیا۔ اہل محلہ نے سامان یہودی کے گھر پاکر اسے چور ٹھہرایا لیکن یہودی نے انصاری کا نام لیا۔ جس پر انصاری کے رشتے داروں نے مل بیٹھ کر مشورہ کیا کہ رسول معظم (ﷺ) کے سامنے یہودی کو چور ثابت کیا جائے۔ جب مقدمہ آپ کی خدمت میں پیش ہوا تو انہوں نے یہودی کو چور ثابت کردیا۔ قریب تھا کہ آپ یہودی پر حد جاری کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو پوری صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے نبی ! یہ آپ کی شان نہیں کہ آپ خائن اور بددیانت لوگوں کی حمایت کریں۔ اب تک جو کچھ ہوا اس پر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے آئندہ آپ کی طرف سے خائن لوگوں کی حمایت نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خائن اور مجرموں کو پسند نہیں کرتا۔ ایسے لوگ دوسروں سے تو اپنے گناہ اور جرائم چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز نہیں چھپا سکتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار اور علم وخبر کے لحاظ سے ہر وقت لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جہاں تک یہ لوگ رات کے وقت ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہوتی ہیں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ ان کی ہر بات اور عمل کا احاطہ کیے ہوتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَامَ فِیْنَا النَّبِیُّ () فَذَکَرَ الْغُلُوْلَ فَعَظَّمَہٗ وَعَظَّمَ أَمْرَہٗ قَالَ لَاأُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی رَقَبَتِہٖ شَاۃٌ لَھَا ثُغَاءٌ عَلٰی رَقَبَتِہٖ فَرَسٌ لَہٗ حَمْحَمَۃٌ یَقُوْلُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَغِثْنِیْ فَأَقُوْلُ لَاأَمْلِکُ لَکَ شَیْءًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ وَعَلٰی رَقَبَتِہٖ بَعِیْرٌ لَہٗ رُغَاءٌ یَقُوْلُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَغِثْنِیْ فَأَقُوْلُ لَاأَمْلِکُ لَکَ شَیْءًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ) [رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب الغلو وقول اللّٰہ تعالیٰ ﴿وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر خیانت کا تذکرہ کرتے ہوئے خیانت اور ایسے معاملہ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے فرمایا میں قیامت کے دن تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری ممیارہی ہو اور کسی کی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو وہ مجھ سے کہے اللہ کے رسول! میری مدد کیجیے۔ تو میں کہوں کہ میں تیرے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تجھے پہنچا دیا اور کسی کی گردن پر اونٹ آواز نکال رہا ہو وہ کہے اللہ کے رسول میری مدد کیجئے۔ تو میں کہوں کہ میں تیرے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا میں نے تجھے آگاہ کر دیاتھا۔“ مسائل : 1۔ خائن لوگوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ 2۔ آدمی لوگوں سے چھپ سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے چھپ سکتا ہے اور نہ کچھ چھپاسکتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار، اختیار اور علم کی بنا پر ہر آدمی کے ساتھ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے : 1۔ انسان جہاں کہیں بھی ہو اس کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہے۔ (الحدید : 4۔ التوبہ :40) 2۔ اللہ تعالیٰ انسان کی شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ (ق : 16، الواقعہ :85) 3۔ انسان جدھر بھی رخ کرے اللہ تعالیٰ کی توجہ اس کی طرف ہوتی ہے۔ (البقرۃ:115) 4۔ آدمی جہاں کہیں ہو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ (الحدید :4) 5۔ آدمی تین ہوں تو چوتھا اللہ ہوتا ہے پانچ ہوں تو چھٹا اللہ ہوتا ہے اس سے زیادہ ہوں یا کم وہ ہر وقت آدمی کے پاس ہوتا ہے۔ (المجادلۃ:7) خائن کا انجام : 1۔ خائن قیامت کے دن اپنی خیانت کے ساتھ پیش ہوگا۔ (آل عمران :161) 2۔ خائن کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (الانفال :58)