وَمَن يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً ۚ وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
جو کوئی اللہ کی راہ میں وطن چھوڑے گا، وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی (١) اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نکل کھڑا ہوا، پھر اسے موت نے آ پکڑا تو بھی یقیناً اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہوگیا (٢)، اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : مہاجر کو تسلی دی گئی ہے کہ گھبرانے اور دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کو ایک جگہ مقید نہیں رکھا ہوارزق تو انسان کے ساتھ‘ ساتھ رہتا ہے۔ لہٰذا اللہ کے راستے میں بےدھڑک نکلو اللہ تمہارا رزق کشادہ کردے گا۔ ہجرت کا حکم دینے اور معذور لوگوں کو معاف کرنے کے اعلان کے بعد مہاجرین کو تسلی دی جارہی ہے۔ میرے نام اور کام پر بے خانماں ہونے اور در بدر کی ٹھوکریں کھانے والو! دل چھوٹا کرنا نہ حوصلہ ہارنا۔ تم ایسے خالق و مالک کے حکم سے وطن چھوڑ رہے ہو جو پتھر کے کیڑے کو چٹان میں‘ گوشت خور درندوں کو جنگل میں‘ پانی کے جانوروں کو سمندر کی لہروں اور تہوں میں‘ پرندوں کو صحراؤں میں رزق پہنچاتا ہے۔ تم تو اشرف المخلوقات اور اس کے راستے کے راہی ہو۔ وہ تمہیں کس طرح کسمپرسی کی حالت میں رہنے دے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا‘ اپنے رب پر اعتماد کرو۔ ذرا یقین کی آنکھ سے تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر دیکھو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عراق چھوڑا تو ملک شام اور سرزمین مقدس کے مالک بنے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کا خاندان اپنے وطن سے نکلا تو سینکڑوں سال مصر کا فرما نروا ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے نکلے تو ان کے پیرو کار بیت المقدس کے حکمران ہوئے۔ غرض یہ کہ ہر دور میں اور ہر قافلۂ مہاجرین کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ انہیں دنیا میں بے پناہ وسعت اور لامحدود فضل سے نوازا۔ صحابہ کرام (رض) کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ جب مہاجرین مکہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو بے خانماں اور کنگال تھے لیکن ہجرت کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اپنی روئیداد بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اب یہ حال ہے کہ مٹی اٹھاتا ہوں تو وہ بھی سونا بن جاتی ہے۔ زکوٰۃ کے علاوہ لاکھوں روپے صدقہ کیے۔ اس کے باوجود وفات کے وقت اڑھائی کروڑ کے مالک تھے۔ حضرت زبیر (رض) بے حساب صدقہ کرنے کے بعد بھی پانچ کروڑ کی جائیداد چھوڑ کر دنیا سے گئے۔ حضرت ابو طلحہ انصاری (رض) پر ایک وقت وہ تھا جب مہمان کا کھانا کم ہونے کی وجہ سے بیوی کو حکم دیتے ہیں کہ جب ہم کھانا شروع کریں تو دیا بجھا دینا۔ میں یوں ہی منہ سے آواز نکالتا رہوں گا تاکہ مہمان سیر ہو کر کھالے۔ پھر ایسا دور آیا کہ لاکھوں درہم کا باغ اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتے ہیں۔ غرضیکہ جن صحابہ نے کاروبار کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں بے حساب نعمتوں سے نوازا۔ [ التجارات فی الاسلام] دنیا کی نعمتوں اور وسعتوں کے ساتھ ان لوگوں کو آخرت کے اجر کی گارنٹی بھی دی گئی ہے۔ جو اپنے گھروں سے نکلے لیکن دارالہجرت نہ پہنچ پائے راستے ہی میں موت نے آ لیا۔ ان میں حضرت خالد بن حزام (رض) بھی ہیں جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی دوران سفر سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے دنیا سے کوچ کر گئے۔ ( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَال خَرَجَ ضَمْرَۃُ بن جُنْدُبٍ (رض) مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا فَقَالَ لأَہْلِہِ احْمِلُونی فَأَخْرِجُونی مِنْ أَرْضِ الْمُشْرِکِینَ إِلَی رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ فَمَاتَ فِی الطَّرِیقِ قَبْلَ أَنْ یَصِلْ إِلَی النَّبِیِّ (ﷺ)، قَالَ فَنَزَلَ الْوَحْیُ ﴿وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا إِلَی اللَّہِ وَرَسُولِہِ ﴾حَتَّی بَلَغَ ﴿وَکَان اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا﴾) [ مسند ابی یعلیٰ الموصلی : باب ﴿وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا ﴾] حضرت سمرہ بن جندب (رض) مدینہ کی طرف نکلے تو راستے میں وفات پا گئے جناب ابو حمزہ بن العیض زرقی نابینا تھے معذور ہونے کے باوجود مدینہ طیبہ کی طرف رواں دواں ہوئے۔ ابھی مکہ سے کچھ دور تنعیم کے مقام پر پہنچے تھے تو موت نے آلیا۔ [ ابن کثیر، ابن ابی حاتم] کفار اور منافقین نے پروپیگنڈہ کیا کہ یہ لوگ نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ اس پر رحمتِ الٰہی جوش میں آئی اور خوشخبری سنائی کہ ہجرت کے لیے اپنے گھروں سے نکلنے والے خوش نصیبوں کے اجر اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیے ہیں جو ہرگز ضائع نہیں ہوں گے۔ مسائل : 1۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والا وسعت اور کشادگی پائے گا۔ 2۔ ہجرت کے دوران فوت ہونے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ تفسیر بالقرآن: ہجرت کی اہمیت : 1۔ ہجرت کا اجر و ثواب اور فضیلت۔ (آل عمران :195) 2۔ ہجرت کے دوران مرنے والے کو پورا ثواب ملے گا۔ (النساء :100) 3۔ ہجرت کا دنیا میں اجر۔ (النحل : 41، 42) 4۔ ہجرت نہ کرنے والوں کی سزا۔ (النساء : 97، 99)