يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں (١) تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی غنیمتیں (٢) ہیں پہلے تم بھی ایسے ہی تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا لہذا تم ضرور تحقیق اور تفتیش کرلیا کرو، بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : قتال فی سبیل اللہ میں احتیاط کو ملحوظ رکھنا چاہیے تاکہ کسی پر ظلم یا غلطی سے مسلمان نشانہ نہ بن جائیں۔ اسلام میں جہاد و قتال کا یہ معنٰی نہیں کہ کفار کی دشمنی میں مجاہد اس حد تک آگے بڑھ جائے کہ اس کی تلوار کے سامنے جو آئے اسے تہ تیغ کرتا چلا جائے۔ اسلامی جہاد اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جس علاقہ پر حملہ کرنا مقصود ہو۔ وہاں کے بارے میں پہلے اچھی طرح معلومات حاصل کی جائیں۔ اگر وہاں مسلمان موجود ہوں تو اندھا دھند حملہ کرنے کے بجائے ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے جس سے مسلمان محفوظ رہ سکیں۔ کیونکہ مسلمانوں کا نقصان ملت کا نقصان اور مجاہدین کے لیے بدنامی کا باعث ہوگا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے جب مکہ پر حملہ کیا تو ایسی منصوبہ بندی فرمائی کہ جس سے مکہ کی حرمت قائم رہے اور مسلمانوں کا نقصان بھی نہ ہونے پائے۔ اعلان فرمایا کہ جو شخص بھی بیت اللہ میں داخل ہوجائے یا اپنے گھر کے کواڑ بند کرلے یا ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے۔ اسے حفظ و امان دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ” سورۃ الفتح آیت 25“ میں اس حکمت عملی کو اپنا انعام قرار دیا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) کا ہمیشہ یہ معمول تھا کہ جس علاقے کے متعلق آپ کے پاس معلومات نہ ہوتیں وہاں حملہ آور ہونے کے بجائے رات بھر انتظار فرماتے اگر صبح کی اذان سنائی نہ دیتی تو آپ حملہ کرنے کا حکم دیتے جیسا کہ حدیث میں حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں : (عَنِّ النَّبِیّ (ﷺ) کَانَ إِذَا غَزَابِنَا قَوْمًا لَمْ یَکُنْ یُغِیْرُ بِنَا حَتّٰی یُصْبِحَ وَیَنْظُرَ فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا کَفَّ عَنْھُمْ وَإِنْ لَمْ یَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ عَلَیْھِمْ۔۔) [ رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب مایحقن بالأذان من الدماء] ” نبی کریم (ﷺ) کسی قوم پر صبح ہونے سے پہلے حملہ نہ کرتے، صبح کے وقت آپ دیکھتے اگر اذان سنتے تو ان پر حملہ نہ کرتے اور اگر اذان نہ سنتے تو ان پر حملہ کردیتے۔۔“ اس کا مقصد یہ تھا کہ کہیں مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچ پائے۔ اس آیت میں اسی احتیاط کا حکم دیا گیا ہے کہ اے مسلمانو! جب تم اللہ کے راستے میں نکلو اور کوئی تمہارے سامنے اپنا ا سلام پیش کرے تو غنائم کے لالچ میں اسے ٹھکرا نے کی بجائے اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔ پھر تنبیہ فرمائی کہ آخر تم بھی تو ان حالات سے گزرے ہو کہ جب تم میں کئی لوگ دشمنوں کے خوف کی وجہ سے اپنا ایمان چھپاتے تھے اور تم بھی پہلے کافر تھے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنا کرم فرمایا کہ تمہیں آزاد مملکت نصیب فرمائی اور دشمن پر غلبہ عطا کیا اور مسلمان ہونے کی توفیق دی۔ یہاں اس سانحہ کی طرف اشارہ ہے جو خالد بن ولید (رض) کے ہاتھوں رونما ہوا کہ جب ایک چھوٹی سی جھڑپ کے دوران کچھ لوگوں نے ان کے سامنے اپنے اسلام لانے کا اظہار کیا تو خالد بن ولید (رض) نے ان پر یقین کرنے کی بجائے انہیں شہید کرڈالا۔ جس پر رسول کریم (ﷺ) نے براءت کا اظہار کیا۔[ رواہ البخاری : کتاب المغازی ] آیت کے آخر میں تنبیہ کے طور پر فرمایا کہ جو کچھ اور جس نیت سے تم کوئی عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کی اچھی طرح خبر رکھنے والا ہے۔ مسائل : 1۔ جہاد کے دوران کافر اور مسلمان کی تمیز اور تحقیق کرنا مجاہد پر لازم ہے۔ 2۔ دنیا کے مال کی خاطر کلمہ پڑھنے والے کو قتل کرنا جائز نہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے تمام اعمال سے باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن : دوران جہاد تحقیق کرنا : 1۔ فاسق کی خبر کی تحقیق کرنا چاہیے۔ (الحجرات :6) 2۔ کسی کے دعوی اسلام کی تحقیق کرنا لازم ہے۔ (النساء :94) 3۔ مشرک اور کافر کے اسلام لانے کی تحقیق کی اجازت۔ (الممتحنۃ:10)