وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ
اور ہم نے (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا، پھر تم نے اس کے بعد بچھڑا پوجنا شروع کردیا اور ظالم بن گئے۔ (١)
فہم القرآن : (آیت 51 سے 53) ربط کلام : بنی اسرائیل پر تیسرا اور چوتھا احسان۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مدین کے علاقہ سے واپسی کے وقت سفر کے دوران نبوت سے سرفراز فرمایا اور دو معجزے عطا فرمائے۔ لاٹھی کا اژدہا بن جانا اور ہاتھ کا روشن ہونا۔ ان معجزات کے ساتھ موقع بموقع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایات ملتی رہیں۔ جن میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون {علیہ السلام}کو فرعون کے پاس جا کر نہایت نرمی کے ساتھ سمجھانے کی ہدایت‘ توحید کے دلائل‘ بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ مظلوم بنی اسرائیل کو صبر اور نماز کی تلقین اور ہر قسم کی راہنمائی کا بندوبست، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے مجادلہ کے نتیجہ میں جادوگروں سے مقابلہ‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم کامیابی کا حصول جس کے نتیجے میں جادوگروں کا موقعہ پرہی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونا اور برملا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا اعلان۔ جس کی تفصیل اپنے مقام پر بیان ہوگی۔ بالآخر فرعون اور اس کے لشکروں کا غرقاب ہونا۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ فلسطین پر حملہ آور ہوجاؤ۔ اللہ اسے تمہارے ہاتھوں فتح کرے گا لیکن بزدل قوم نے کہا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) تم اور تمہارا خدا لڑو ہم تو اتنے طاقت وروں کے ساتھ نہیں لڑ سکتے اس کی پاداش میں انہیں سینا کے ریگستان میں چالیس سال کے لیے انہیں مقید کردیا گیا۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ آپ کوہ طور پر تیس دن کے لیے حاضری دیں تاکہ آپ کو تحریری طور پر تختیوں کی شکل میں تورات عنایت کی جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طور سینا پر فرو کش ہوئے تو تیس دن کی مدت کو چالیس دن میں تبدیل کردیا گیا۔ بنی اسرائیل اس قدر احسان فراموش اور سنگ دل قوم تھی کہ جوں ہی ان کا دشمن غرقاب ہوا۔ یہ دریا عبور کر کے ابھی تھوڑی ہی دیر چلے تھے کہ راستہ میں انہوں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو بتوں کے سامنے مراقبہ‘ اعتکاف اور طواف کر رہے تھے۔ بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے احسانات کو فراموش کرتے ہوئے بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کرنے لگے کہ ہمیں بھی ایساہی معبود بنادیجیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے شرک کے نقصانات بتاتے ہوئے فرمایا کہ یہ قوم تو ہلاکت اور بربادی کے کنارے پر کھڑی ہے۔ جن کی یہ پوجا کر رہے ہیں وہ باطل اور ان کا یہ عمل شرک ہے۔ کیا تم اللہ کے بغیر کسی اور کو معبود مانتے ہو؟ جبکہ اس نے تمہارے دشمن کو غرق کرکے پوری دنیا میں تمہیں ممتاز کردیا ہے۔ اس وقت تو یہ لوگ باز آئے لیکن غلامانہ ذہن رکھنے والی قوم شرک سے کس طرح باز آ سکتی تھی؟ جوں ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کے لیے کوہ طور پر تشریف لے گئے تو سامری نام کے ایک آدمی نے سونے کا ایک بچھڑا بنا کر انہیں کہا کہ یہی وہ خدا ہے جس کی تلاش میں موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے سب کچھ فراموش کرتے ہوئے بچھڑے کی عبادت شروع کردی۔[ طٰہٰ: 87، 88] مسائل: 1۔ غیر اللہ کی پوجا یعنی شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ آدمی کو ڈھیل دے تو اسے توبہ اور شکر کرنا چاہیے۔ 3۔ تورات موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی جو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا سرچشمہ تھی۔ 4۔ حضرت موسیٰ کو بڑے بڑے معجزات عنایت کیے گئے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کا موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ : 1۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے تیس راتوں کا وعدہ ہوا پھر مزید دس راتوں کا اضافہ کردیا گیا۔ (الاعراف :142) 2۔ اسی مدت میں انہیں تختیوں کی شکل میں تورات عنایت کی گئی۔ (الاعراف :143 تا 145) فرقان کیا ہے؟ 1۔ فرقان سے مراد معجزات۔ (البقرۃ :53) 2۔ قرآن مجید فرقان ہے۔ (الفرقان :1) 3۔ یوم بدر یوم فرقان ہے۔ (الانفال :41) 4۔ تقو یٰ فرقان کا ذریعہ ہے۔ (الانفال :29)