سورة النازعات - آیت 27

أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا ؟ اللہ نے اسے بنایا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 27 سے 33) ربط کلام : قیامت کے منکرین کی سب سے بڑی دلیل کا جواب۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل یہ رہی ہے کہ جب انسان مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتا ہے تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جاسکتا ہے ان کے نزدیک یہ بات ناممکنات میں سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی سوچ رکھنے والے اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتوں پر توجہ نہیں دیتے؟ ان کی سوچ صرف اپنی حد تک رہتی ہے اور وہ دنیا کے اسباب پر ہی نظر رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ساری دنیا کے انسان مل کر بھی چھوٹی سے چھوٹی جاندار چیز پیدا نہیں کرسکتے اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتوں پر توجہ دیں تو انہیں یقین آجائے گا کہ واقعی اللہ تعالیٰ کا فرمان برحق ہے کہ وہ قیامت کے دن لوگوں کو اٹھائے گا اور اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا۔ ایسے لوگوں کی سوچ کے دریچے کھولنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ کیا تمہیں پیدا کرنا مشکل ہے یا آسمان کو بنانا مشکل ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آسمان کو بنایا بلکہ اسے بنا کر بغیر ستونوں کے فضا میں کھڑا کردیا ہے، دیکھنے والا نہ اس میں کوئی دراڑ دیکھتا ہے اور نہ ہی آج تک کہیں سے وہ جھکا ہے یہ اسی طرح فضا میں معلق اور قائم ہے جس طرح اسے پہلے دن بنایا اور ٹھہرایا گیا تھا۔ پھر ” اللہ تعالیٰ“ ہی زمین و آسمان کے درمیان رات اور دن کو پیدا کرتا ہے، رات اپنی تاریکی اور سکون میں لوگوں کو سلا دیتی ہے اور دن کی روشنی لوگوں کو جگا دیتی ہے۔ اسی ذات کبریا نے زمین کو پانی پر پھیلایا اور بچھایا ہے، وہی زمین سے پانی نکالتا ہے اور اس پانی کے ذریعے لوگوں اور جانوروں کے لیے چارہ نکالتا ہے، اسی نے زمین پر پہاڑ گاڑ دیئے ہیں اور اس میں انسانوں اور ان کے چوپاؤں کے لیے ہر قسم کے فوائد رکھ دئیے ہیں، اگر انسان ان باتوں پر غور کرے تو یہ حقیقت اس پر واضح ہوجائے گی کہ جس خالق نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں وہی انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ غور کریں کہ آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو الگ الگ کیا۔ ( الانبیاء : ٣٠) اور دھوئیں سے ٹھوس آسمان پیدا کیے۔ (حمٓ السجدۃ:11) اس طرح زمین پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پانی نکالا اور پھر زمین کو فرش کے طور پر بچھادیا۔ ( ھود : 7، البقرۃ:22) زمین پر پہاڑ اس لیے گاڑ دیئے تاکہ اس میں ایک طرف جھکاؤ پیدا نہ ہوسکے۔ یہ ایسے دلائل ہیں جس پر معمولی سا غور کرنے سے ایک طرف اللہ تعالیٰ کی خالقیت پر ایمان مضبوط ہوتا ہے اور دوسری طرف قیامت کے دن جی اٹھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ زمین جس دانے کو اپنے پیٹ میں ایک مدت تک چھپائے رکھتی ہے جب اس کے اگنے کا وقت آتا ہے تو اپنے خالق کے حکم سے اس کے نکلنے کے لیے زمین اپنا سینہ کھول دیتی ہے کیا قیامت کے دن زمین ایسا کرنے سے انکار کردے گی؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا جونہی اللہ تعالیٰ اسے حکم دے گا تو زمین پھٹ جائے گی اور لوگ اپنے اپنے مقام سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا دوسرا صور پھونکنے کا عرصہ چالیس کا ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں جانتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میرا کوئی جواب نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز مٹی ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (رواہ مسلم : باب مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ) ﴿قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا﴾ (بنی اسرائیل :50) ” فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو بنایا اور اسے بلند فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی رات کو تاریک کرتا ہے اور دن کو روشن فرماتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش بنایا اور وہی اس سے پانی اور چارہ نکالتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو زمین پر بوجھ کے طور پر ڈال رکھا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں اور ان کے چوپاؤں کے لیے ان کی زندگی کا سامان پیدا کیا ہے۔