وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا
ڈوب کر سختی سے کھنچنے والوں کی قسم (١)
فہم القرآن: (آیت 1 سے 5) ربط سورت : سورۃ النّبا کے آخر میں ارشاد ہوا کہ قیامت کا قائم ہونا برحق ہے۔ النّازعات کی ابتدا میں پانچ قسمیں اٹھا کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جس طرح انسان کا مرنا برحق ہے اسی طرح اس کا دوبارہ اٹھایا جانا بھی برحق ہے۔ صحابہ کرام (رض) اور ان کے شاگردان عظام کے حوالے سے مفسرین نے ان آیات کی یہ تفسیر کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان ملائکہ کی قسمیں اٹھائی ہیں جو انسان کی روح قبض کرکے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں اور جو انہیں حکم ملتا ہے وہ اسے کر گزرتے ہیں۔ 1۔ قسم ہے ان فرشتوں کی جو مرنے والے کے جسم میں پوری طرح داخل ہو کر سختی کے ساتھ جان نکالتے ہیں۔2۔ قسم ہے ان کی جو مرنے والے کے جسم سے نرمی کے ساتھ روح نکالتے ہیں۔ 3۔ قسم ہے ان کی جو فضا میں بڑی تیزی سے تیرتے ہوئے جاتے ہیں۔ 4۔ قسم ہے ان کی جو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 5۔ قسم ہے ان کی جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے نفاذ کی تدابیر کرتے ہیں۔ ان قسموں سے دوباتیں ثابت کی گئی ہیں۔ ہر شخص کے لیے موت برحق ہے اور موت کا وقت بڑا کٹھن اور مشکل ہوتا ہے البتہ نزع کے وقت مومن کی روح آسانی کے ساتھ نکل جاتی ہے اور برے شخص کی موت کا ہر لمحہ اس کے پہلے لمحے سے سخت ترین ہوتا ہے، جوں ہی عزرائیل مرنے والے کی روح جنت یا جہنم کے فرشتوں کے حوالے کرتا ہے تو وہ روح کو لے کر آسمان کی طرف اس تیزی کے ساتھ چڑھتے ہیں جیسے فضا میں کوئی چیز تیر رہی ہو، فرشتوں کو اوپر چڑھنے میں ذرہ بھر مشکل پیش نہیں آتی وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر اس طرح عمل کرتے ہیں جس طرح اس پر عمل کرنے کا حق ہے۔ ان ملائکہ سے مراد اگر صرف موت کے ملائکہ لیے جائیں تو اس کا معنٰی ہوگا کہ وہ موت کے وقت مرنے والے کی روخ قبض کرتے ہیں اگر مدبّرات سے تمام فرشتے لیے جائیں تو اس کا معنٰی یہ ہے کہ جس فرشتے کی جو ڈیوٹی لگائی گئی ہے وہ اس پر اسی طرح ہی عمل کرتا ہے جس طرح اس پر عمل کرنے کا اسے حکم دیا جاتا ہے۔ ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (ﷺ) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (ﷺ) بیٹھ گئے ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول (ﷺ) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کرید رہے تھے آپ نے سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا۔۔ جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جاتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار کفن ہوتا ہے فرشتے حد نگاہ تک مرنے والے سے دور بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے اے خبیث نفس! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کا سامنا کر۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کو نکال کر جس تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو آتی ہے جس طرح زمین سے گندی لاش کی بدبو نکلتی ہے وہ اس کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں، وہ فرشتوں کے جس گروہ کے قریب سے گزرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کس کی ہے وہ کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے۔ اس کا برے ناموں کے ساتھ ذکر کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں۔ آسمان کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (ﷺ) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت کی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں اونٹ داخل ہوجائے“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے سجین یعنی زمین کی تہہ میں ٹھکانا بناؤ اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے پھر نبی معظم (ﷺ) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں“ پھر اس روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، فرشتے پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے پوچھتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے جو تم میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اس کا بچھونا آگ کا بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو۔ اس کو اس آگ کی گرمی اور بدبو آتی ہے اس پر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں پھر اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے تو وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے حسب وعدہ ذلیل کیا جائے وہ پوچھتا ہے تو اتنی بری شکل والا کون ہے؟ جو اتنی بری بات سنا رہا ہے وہ کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں وہ کہے گا اے میرے رب کبھی قیامت نہ قائم کرنا۔“ (مسند احمد : مسند البراء بن عازب، قال بیہقی ہذا حدیث کبیر صحیح الاسناد) مسائل: 1۔ موت کے فرشتے انسان کی رگ رگ سے جان نکالتے ہیں۔ 2۔ ملائکہ کو آسمان کی طرف جانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ 3۔ ملائکہ انسان کی روح قبض کرکے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 4۔ نیک کی روح آسانی کے ساتھ اور برے کی روح بڑی تکلیف کے ساتھ نکالی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید میں ملائکہ کی ذمہ داریوں کا تذکرہ : 1۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی گواہی دیتے ہیں۔ ( النساء :166) 2۔ قرآن مجید میں ٤ فرشتوں کا نام آیا ہے۔ جبرائیل، میکائیل، ملک الموت اور مالک۔ (البقرۃ، 98، السجدۃ: 11الزخرف :77) 3۔ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (نبا :38) 4۔ جبریل (علیہ السلام) مقرب ترین فرشتہ ہے۔ (النجم :8) 5۔ جبریل (علیہ السلام) طاقتور فرشتہ ہے۔ (النّجم :5) 6۔ جبریل (علیہ السلام) دیانت دار فرشتہ ہے۔ (الشعراء :193) 7۔ آپ (ﷺ) کے قلب اطہر پر جبرائیل (علیہ السلام) نے قرآن اتارا ہے۔ (البقرۃ :97) 8۔ جبرئیل کی تمام ملائکہ تابعداری کرتے ہیں اور جبرئیل امین فرشتہ ہے۔ (التکویر :21) 9۔ (اسرافیل) قیامت کے دن صور پھونکے گا۔ (الزمر :68) 10۔ جہنم کے کنٹرولر فرشتے کا نام مالک ہے۔ (الزخرف :77) 11۔ قیامت کے دن آٹھ فرشتے اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ (الحاقہ :17) 12۔ فرشتے جنت پر معمور ہیں۔ (الزمر :73) 13۔ فرشتے جہنم پر ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ ( الزمر71) 14۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (البقرۃ:30) 15۔ ملائکہ لوگوں کے اعمال درج کرتے ہیں۔ ( انفطار :11) 16۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے نافرمانوں کو عذاب دیتے ہیں۔ (ہود :77) 17۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں۔ ( آل عمران : 124، 125)