رَّبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمَٰنِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا
(اس رب کی طرف سے ملے گا جو کہ) آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا پروردگار ہے اور بڑی بخشش کرنے والا ہے۔ کسی کو اس سے بات چیت کرنے کا اختیار نہیں ہوگا (١)
فہم القرآن: (آیت 37 سے 40) ربط کلام : جہنمی کے عقیدے کی تمیز۔ جہنم میں جانے والوں کے جرائم میں ایک جرم یہ ہوگا کہ وہ دنیا میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قیامت کے دن ان کے پیر، فقیر اور معبود انہیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچالیں گے لیکن وہاں صورت حال یہ ہوگی کہ کسی کو رب ذوالجلال کی گرفت سے بچانا تو درکنار کوئی اس کے سامنے بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکے گا کیونکہ وہی زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا پیدا کرنے والا اور مالک ہے۔ دنیا میں اس نے ہر انسان کو ایک حد تک اپنی مرضی کرنے کی اجازت دے رکھی ہے لیکن قیامت کے دن اس کے سا منے کوئی دم نہیں مار سکے گا۔ اس دن حالت یہ ہوگی کہ جبریل امین اور تمام ملائکہ اپنے رب کے حضور قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے، کوئی فرشتہ ہویا انسان گنہگار ہو یا پاکباز، ولی ہو یا نبی کوئی بھی رب ذوالجلال کی اجازت کے بغیر بات کرنے کی جرأت نہیں پائے گا۔ اس کے حضور وہی بات کرسکے گا جسے وہ اجازت عطا فرمائے گا اور جسے اجازت دی جائے گی وہ وہی بات اور الفاظ استعمال کرے گا جو صحیح ہوں گے، اس دن کا آنا اور قیامت کا قائم ہونا برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو بتلا دیا ہے کہ وہ دن اور اس کا عذاب دور نہیں بلکہ بالکل قریب ہے اب جس کا دل چاہے وہ اپنے رب کی طرف واپس جانے کا صحیح راستہ اختیار کرلے اور جو چاہے اپنی مرضی کرتا رہے۔ جس نے اپنی مرضی کا راستہ اختیار کیا وہ کہے گا کہ کاش! میں مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاؤں۔ ” ہم نے تمہیں اس عذاب سے ڈرادیا ہے جو قریب آچکا ہے جس دن آدمی سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی بنا رہتا۔“ (النبا :40) (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) (رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن جبریل امین اور تمام ملائکہ قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ 2۔ قیامت کے دن الرحمن کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہیں کرسکے گا۔ 3۔ قیامت کے دن جسے بات کرنے کی اجازت ہوگی وہ صحیح بات کرئے گا۔ 4۔ قیامت کا دن ہر صورت برپا ہو کر رہے گا اس کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ 5۔ قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کو اپنے سامنے پائے گا۔ 6۔ قیامت کے دن کافر اس بات کی تمنا کرے گا کہ کاش! میں مٹی کے ساتھ مٹی بنا رہتا۔ 7۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے قائم ہونے کے ٹھوس دلائل دیئے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن کوئی شخص رب رحمن کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرسکے گا : 1۔ کون ہے جو اس کے حکم کے بغیر سفارش کرے۔ (البقرۃ:255) 2۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس :18) 3۔ سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (الانبیاء :38) (المدثر :38)