وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِندِكَ بَيَّتَ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ ۖ وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ ۖ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا
یہ کہتے ہیں کہ اطاعت ہے، پھر جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک جماعت، جو بات آپ نے یا اس نے کہی ہے اس کے خلاف راتوں کو مشورہ کرتی ہے (١) ان کی راتوں کی بات چیت اللہ لکھ رہا ہے، تو آپ ان سے منہ پھیر لیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں اللہ تعالیٰ کافی کارساز ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : منافقوں کے کردار کا تذکرہ جاری ہے۔ منافق کی یہ بھی عادت ہوتی ہے کہ دوغلی بات کرتا ہے۔ منافق کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سامنے جی حضوری اور بعد میں اس کے الٹ بات کرتا ہے۔ یہی عادت آپ کے دور کے منافقوں کی تھی۔ رسول اللہ (ﷺ) کے رعب اور مسلمانوں کے ماحول سے مرعوب ہو کر اور ظاہری رکھ رکھاؤ کے لیے آپ (ﷺ) کے سامنے آتے تو ایسے الفاظ اور انداز اختیار کرتے کہ جن سے آپ کو یقین ہوجائے کہ یہ واقعتا مخلص لوگ ہیں۔ لیکن جونہی آپ کی محفل سے باہرجاتے بالخصوص رات کے وقت خفیہ میٹنگوں میں مشورے کرتے کہ اسلام سے کس طرح چھٹکارا پائیں اور آپ کو کس طرح نقصان پہنچایا جائے؟ ان کی خفیہ مجالس کو طشت ازبام کرکے بتلایا جارہا ہے کہ جو کچھ یہ کہتے اور کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے لکھ رہا ہے اور کراماً کاتبین ان کا ایک ایک لفظ اور تمام حرکات کو ضبط تحریر میں لا رہے ہیں۔ قیامت کے روز مکمل ریکارڈ ان کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ یہاں نہایت بلیغ انداز میں منافقوں کو ایسی حرکات سے بازرہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے بعد رسول کریم (ﷺ) کو سمجھایا گیا کہ آپ ایسی باتوں کے پیچھے پڑنے کے بجائے درگزر فرمایا کریں۔ کیونکہ صاحب عزیمت لوگ سفلہ مزاج لوگوں کی عادات سے صرف نظر ہی کیا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور اپنا کام کرتے جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی پوری طرح حفاظت کرنے والا، کار ساز اور ان کی سازشیں ناکام کرنے والا ہے۔ مسائل : 1۔ منافق لوگ رسول اللہ (ﷺ) کی مجلس میں اطاعت کا اعلان کرتے جبکہ بعد میں انکار کرتے تھے۔ 2۔ لوگوں کے اعراض اور بے ہودہ اعتراضات پر افسردہ ہونے کی بجائے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔