سورة النبأ - آیت 1

عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

یہ لوگ کس کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں (١)

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن: (آیت 1 سے 11) ربط سورت : المرسلات میں ان لوگوں کی تردید کی گئی ہے جو قیامت کی تکذیب کرتے ہیں۔ سورۃ النّباء میں بتایا گیا ہے کہ قیامت بڑی ہولناک چیز ہے اور اس کا برپا ہونا ہر صورت یقینی ہے لیکن قیامت کا انکار کرنے والے اس کے باوجود اس کے بارے میں قیل وقال کرتے ہیں عنقریب ان لوگوں کو اس کی حقیقت کا علم ہوجائے گا۔ قرآن مجید کے مرکزی مضامین میں تیسرا بڑا مضمون قیام قیامت ہے جو اس دنیا کا آخری دن ہوگا۔ جس نے قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق زندگی بسر کی وہ کامیاب ہوگا اور جس نے قرآن مجید کی ہدایت سے انحراف کیا وہ اپنے کیے کی سزا پائے گا۔ اس دنیا کا انجام آخرت ہے اس لیے چند سورتوں کے سوا المرسلات سے لے کر تیسویں پارے کی تمام سورتوں میں آخرت کے مختلف مراحل کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا اپنے انجام کے بارے میں غوروفکر کرسکے۔ مکہ کے لوگ قیامت کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ انسان جب مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے تو اسے زندہ نہیں کیا جاسکتا ہے، کچھ لوگ قیامت کی تردید کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ اب تک جتنے لوگ مر چکے ہیں ان میں کوئی بھی پلٹ کر واپس نہیں آیا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دوبارہ پیدا نہیں ہونا اور نہ ہی قیامت برپا ہوگی۔ مکہ میں یہ بات کہنے والے بھی موجود تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک شغل کے طور پر انسان اور اس کائنات کو پیدا کیا ہے، اس لیے جب انسان مرجاتا ہے تو پھر اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ بس ایک سلسلہ ہے جو صدیوں سے جاری ہے اور اسی طرح جاری رہے گا، کچھ لوگ قیامت کے مسئلہ کو صرف اختلافی بات اور جھگڑا سمجھتے تھے اور یہی جھگڑا نبی (ﷺ) کے ساتھ کرتے تھے۔ اس پس منظر میں یہ سورت نازل ہوئی جس کا آغاز اس بات سے ہوا کہ لوگ آپس میں کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں ؟ کیا ایک بڑی خبر کے بارے میں یہ ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں ؟ ان کا کہنا ہے کہ قیامت برپا نہیں ہوگی، حالانکہ ان کی بات ہر اعتبار سے غلط ہے قیامت ہر صورت برپا ہوگی اور لوگوں کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور پھر انہیں پتہ چل جائے گا کہ قیامت کیا ہے ؟ جب انہیں معلوم ہوگا تو اس پر ایمان لائیں گے مگر اس وقت ایمان لانے کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ (النازعات : 42، 43) یہ لوگ قیامت کا اس لیے انکار کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ ناممکن بات ہے، حالانکہ یہ نہیں سوچتے کہ ہم نے زمین کو مخلوق کے لیے گہوارہ بنایا اور اس پر پہاڑوں کو میخوں کے طور پر گاڑ دیا اور تمہیں جوڑے جوڑے پیدا کیا اور نیند کو تمہارے لیے باعث سکون بنایا اور دن کو معاش کے لیے بنایا۔ انسان اگر ان باتوں پر غور کرے تو ان میں ہر کام ایسا ہے جس میں قیامت کا ثبوت ملتا ہے زمین پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پانی پر ٹھہرایا ہے لیکن آج تک نہ کہیں سے ڈھلکی ہے اور نہ پانی میں غرق ہوئی ہے، زمین کا توازن قائم رکھنے کے لیے اس پر فلک بوس پہاڑگاڑ دیئے ہیں جو اپنی چوڑائی، لمبائی اور اونچائی کے لحاظ سے اپنے خالق کی قدرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انسان اپنی تخلیق پر غور کرے تو اپنے رب کی قدرت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا اور پھر قیامت تک تخلیق انسانی کا سلسلہ شروع فرمایا اور میاں بیوی کے درمیان ایسا رشتہ قائم کیا کہ اس سے پہلے وہ اس تعلق اور محبت کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ انسان اپنی سرگرمیوں پر غور کرے کہ سارا دن اپنی معاش کی فکر میں لگا رہتا ہے جس سے اس کا وجود اور دماغ تھک جاتا ہے لیکن جونہی رات کے تاریک لباس میں سوتا ہے تو سارے دن کی تھکن دور ہوجاتی ہے۔ کیا انسان غور نہیں کرتا کہ یہ کس کا کمال ہے جو اسے ہر صبح تازہ دم کرکے اٹھاتا ہے اور اس کی قوت کار کو بحال کرتا ہے۔ جس خالق نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں کیا وہ قیامت کے دن انسان کو پیدا نہیں کرسکتا ؟ کوئی شک نہیں کہ وہ انسان کو نہ صرف دوبارہ پیدا کرے گا بلکہ اسے اپنی بارگاہ میں حاضر کر کے اس سے پورا پورا حساب لے گا۔ انسان غور کرے کہ قیامت کے انکار کرنے کا اس پاس کیا جواز رہ جاتا ہے ؟ اسی لیے فرمایا کہ لوگ بہت بڑی خبر کے بارے میں ایک دوسرے سے تکرار کرتے ہیں جس نے ہر صورت آکر رہنا ہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کا یہ کام نہیں کہ وہ قیامت کے بارے میں بحث مباحثہ کرے اس کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو قیامت کے لیے تیار کرے۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَتَی السَّاعَۃُ قَالَ وَیْلَکَ وَمَا اَعْدَدْتَ لَھَا قَالَ مَا اَعْدَدْتُّ لَھَا اِلَّا اَنِّیْ اُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ قَالَ اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ قَالَ اَنَسٌ فَمَا رَاَیْتُ الْمُسْلِمِیْنَ فَرِحُوْا بِشَیءٍ بَعْدَ الْاِسْلَامِ فَرَحَھُمْ بِھَا۔) (رواہ البخاری : باب مَنَاقِبُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِی حَفْصٍ الْقُرَشِیِّ الْعَدَوِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول (ﷺ) سے دریافت کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : تجھ پرا فسوس تو نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے جواب دیا : کہ میں تو صرف اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تو اسی کے ساتھ ہوگا، جس کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کو دیکھا، وہ اسلام لانے کے بعد کسی بات پر اتنے خوش نہیں ہوئے جتنے اس بات پر خوش ہوئے تھے۔“ مسائل: 1۔ اللہ ہی نے زمین کو لوگوں کے لیے گہوارہ بنایا ہے۔ 2۔ اللہ ہی نے زمین پر پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا ہے۔  3۔ اللہ ہی نے لوگوں کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے۔ 4۔ اللہ ہی نے نیند کو لوگوں کے لیے باعث سکون بنایا ہے۔  5۔ اللہ ہی نے رات کو سونے کے لیے لباس بنایا ہے۔ 6۔ اللہ ہی نے دن کو معاش کا ذریعہ بنایا ہے۔  تفسیر بالقرآن: قیامت کے دلائل : 1۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے۔ (الحجر :85) 2۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے اور اللہ قبروالوں کو اٹھائے گا۔ (الحج :7) 3۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف :21) 4۔ بے شک قیامت آنے والی ہے۔ میں اس کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر کسی کو جزا یا سزا دی جائے۔ (طہٰ:15) 5۔ اے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ (الحج :1) 6۔ کافر ہمیشہ شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اچانک آجائے۔ (الحج :55) 7۔ ہم نے قیامت کے دن جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب تیار کیا ہے۔ (الفرقان :11)