إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنزِيلًا
بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے (١)
فہم القرآن: (آیت 23 سے 26) ربط کلام : اس سورت کی ابتداء میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرما کر اسے یہ بات بتلا دی ہے کہ اے انسان تو شکر اور کفر میں جس کا چاہے انتخاب کرلے جو لوگ کفر کریں گے انہیں جہنم میں رنجیروں سے جھکڑا جائے گا اور ان کے لیے جہنم کی آگ تیار کی گئی ہے، جو لوگ شکر کا راستہ اختیار کریں گے ان کے اعمال کی قدر دانی کی جائے گی۔ ان کے لیے جنت کی نعمتیں ہوں گی۔ قرآن مجید میں ” اللہ تعالیٰ“ نے ہدایت کے راستے کو واضح کردیا ہے اس کے باوجود لوگ ہدایت کے راستہ پر نہیں آتے تو داعی کو صبر کے ساتھ اپنا کام جاری رکھنا چاہے۔ نبی (ﷺ) کو اسی بات کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن مجید کے بڑے بڑے مضامین تین میں اور یہ مضمون بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ 1۔ توحید 2۔ رسالت 3۔ آخرت۔ اہل مکہ اور ہر دورکے لوگوں کی اکثریت ان تینوں باتوں کا انکار کرتی رہی ہے۔ ان مضامین کو قرآن مجید بار بار مختلف الفاظ اور انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ لوگ ان پر ایمان لائیں اور اپنی دنیا و آخرت کو بہتر بنا لیں کیونکہ ان مضامین پر قرآن مجید بار بار زوردیتا ہے اس لیے اہل مکہ قرآن مجید کا انکار کرنے کے لیے مختلف بہانے کیا کرتے تھے۔ ان بہانوں میں ان کا ایک بہانہ یہ بھی تھا کہ قرآن مجید یکبارگی کیوں نازل نہیں کیا جاتا۔ قرآن مجید نے کفار کے ان اعتراضات کے جواب درج ذیل تفسیر بالقرآن: میں پیش کیے گئے ہیں۔ لیکن ٹھوس دلائل پانے کے باوجود اہل مکہ یا وہ گوئی کرتے رہے۔ جس پر آپ (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر وحوصلہ سے کام لیں اور حالات جیسے بھی ہوں آپ کو کسی بدعمل اور ناشکرے کی بات نہیں ماننی چاہیے، صبر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے رب کو صبح و شام یاد کریں اور رات کے کچھ حصوں میں اپنے رب کے حضور سجدے کیا کریں اور اس کی تسبیحات پڑھیں۔ یاد رہے کہ ” اللہ“ کا ذکر انسان کو ایک طرف اس کے رب کے قریب کرتا ہے اور دوسری طرف اسے مشکلات پر قابو پانے کے لیے حوصلہ دیتا ہے۔ ” بکرۃ“ سے مراد صبح کی نماز اور ” اصیل“ کا لفظ زوال کے وقت سے لے کر مغرب کے وقت تک ہوتا ہے اس میں ظہر اور عصر کی نمازیں شامل ہیں۔ ﴿ وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہ﴾سے مراد غروب آفتاب سے آدھی رات ہے۔ ان اوقات میں مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی جاتی ہے۔” لَیْلاً طَوِیْلًا“ سے مراد تہجد کا وقت ہے جو صبح صادق تک جاری رہتا ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ جہاں نبی (ﷺ) کی مشکلات کا ذکر ہوتا ہے وہاں آپ کو نماز پڑھنے اور ذکر کرنے کی یاد دہانی کروائی جاتی ہے کیونکہ نماز اور اللہ کے ذکر کے بغیر مشکلات پر قابو نہیں پایا جا سکتا جو شخص مشکلات کے وقت اپنے آپ پر قابو نہیں پاتا وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا۔ ” حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے وہ شخض زندگی کے حقائق سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا جو صبر و استقامت کا مظاہرہ نہیں کرتا۔“ (سیرت عمر فاروق (رض) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو وقفے وقفے سے نازل فرمایا ہے۔ 2۔ مسلمان کو مشکلات کے وقت اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر کرنا چاہیے اور کسی حال میں بھی برے لوگوں کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ 3۔ مسلمان کو ہر حال میں اپنے رب کو یاد کرنا چاہیے۔ 4۔ اللہ کے ذکر اور نماز پڑھنے سے مسلمان کو حوصلہ نصیب ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید یک بار کیوں نازل نہیں کیا گیا : 1۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو یک بار اس لیے نازل نہیں کیا تاکہ قرآن کو آپ (ﷺ) کے دل پر اچھی طرح ثبت کردیا جائے اور آپ اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ (الفرقان :32) 2۔ قرآن مجید کو اس لیے آہستہ آہستہ نازل کیا گیا تاکہ آپ (ﷺ) تھوڑا تھوڑا کرکے لوگوں تک پہنچائیں۔ (بنی اسرائیل :106)