وَجَزَاهُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا
اور انہیں ان کے صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے۔
فہم القرآن: (آیت 12 سے22) ربط کلام : نیک لوگوں کی جزا اور انعام کا ذکر جاری ہے۔ نیک لوگوں کو جزا اور انعام اس لیے دیا جائے گا کیونکہ وہ اللہ کی توحید پر ایمان رکھتے تھے اور نبی (ﷺ) کی اطاعت کیا کرتے رہے اور دیگر نیک اعمال کے ساتھ اپنی نذروں کو پورا کرتے تھے، صرف اللہ کی رضا کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ کیونکہ یہ کام بڑے حوصلے کے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ صابر حضرات کو دیگر انعامات کے ساتھ ریشم کے لباس پہنائے جائیں گے، وہ تکیوں پر ایسے مقامات پر جلوہ افروز ہوں گے جنہیں نہ دھوپ لگے گی اور نہ ہی سردی چھوئے گی، ان پر اس طرح کے سایہ دار درخت ہوں گے جن کی شاخوں پر پھل ٹپک رہے ہوں گے۔ جنت کے خدّام شیشے اور چاندی سے بنے ہوئے صاف اور شفاف جام لیے ہوئے جنتی کے آگے پیچھے پھریں گے۔ جنتی کو ایسی شراب پیش کی جائے گی جس میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی یہ جنت میں اس چشمے سے نکلے گی جس کا نام سلسبیل ہے۔ جنتی کو شراب پلانے اور ان کی خدمت کرنے والے غلمان ہمیشہ ایک جیسے رہیں گے، ان کے حسن وجمال کا عالم یہ ہوگا کہ دیکھنے والا انہیں چمکتے ہوئے موتی تصور کرے گا۔ جنتی جنت میں جدھر بھی آنکھ اٹھائے گا وہ ہر قسم کی نعمتیں پانے کے ساتھ اپنے لیے بہت بڑی سلطنت پائے گا۔ گویا کہ اسے وسیع ترین جنت دی جائے گی۔ انہیں دیباج اور اطلس کے زرق برق لباس پہنائے جائیں گے اور چاندی کے کنگن ان کی کلائیوں میں ہوں گے۔ ان کے رب کے حکم سے انہیں شراب طہور پلائی جائے گی۔ ارشاد ہوگا کہ یہ تمہاری کوشش کا صلہ ہے جو ہمارے ہاں قبول ہوچکی ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) (رواہ مسلم : باب فی صفۃ خیام الجنۃ ....) ” حضرت عبداللہ بن قیس اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ کا فرمان ہے کہ جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے ہاں وہی جائے گا دوسرا انہیں دیکھ نہیں پائے گا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَ لَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْا إِنْ شِئْتُمْ ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ﴾) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔“ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (ﷺ) نے فرمایا : جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لایا، نماز قائم کی، رمضان کے روزے رکھے‘ اللہ تعالیٰ نے ذمّہ لے لیا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ خواہ اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا یا اپنی پیدائش کے علاقے میں رہا صحابہ (رض) نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! اجازت ہو تو ہم لوگوں کو یہ خوش خبری سنائیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا : بلاشبہ جنت کی سومنزلیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے، جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر دو منزلوں کے درمیان زمین و آسمان کے برابر فاصلہ ہے۔ جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس کا سوال کروکیونکہ وہ اعلیٰ وافضل جنت ہے اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔“ (رواہ البخاری : کتاب الجہاد) (عن عَبْداللّٰہِ بْنَ عُکَیْمٍ قَالَ کُنَّا مَعَ حُذَیْفَۃَ (رض) بِالْمَدَآئِنِ فَاسْتَسْقٰی حُذَیْفَۃُ فَجَآ ءَ ہٗ دِہْقَانٌ بِشَرَابٍ فِیْ إِنَاءٍ مِّنْ فِضَّۃٍ فَرَمَاہُ بِہٖ وَقَالَ إِنِّیْٓ أُخْبِرُکُمْ أَنِّیْ قَدْ أَمَرْتُہٗ أَنْ لاَّ یَسْقِیَنِیْ فِیْہِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ لاَ تَشْرَبُوْا فِیْ إِنَآء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَلاَ تَلْبَسُوا الدِّیْبَاجَ وَالْحَرِیْرَ فَإِنَّہٗ لَہُمْ فِی الدُّنْیَا وَہُوَ لَکُمْ فِی الآخِرَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) (رواہ مسلم : کتاب اللباس والزینۃ، باب تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ عَلَی الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ) ” حضرت عبداللہ بن عکیم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم حذیفہ (رض) کے ساتھ مدائن میں تھے۔ حذیفہ (رض) نے پانی طلب کیا تو ایک کاشتکار چاندی کے برتن میں پانی لے کر حاضر ہوا۔ حضرت حذیفہ (رض) نے اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ میں تمہیں یہ بات بتلاتے ہوئے حکم دیتاہوں کہ کوئی مجھے ایسے برتن میں پلائے کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو۔ زیور اور ریشمی لباس نہ پہنو (مرد) یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں ہیں۔“ مسائل: 1۔ جنت میں جنتی ایسی جگہوں پر تکیہ لگائے تشریف فرما ہوں گے جہاں اللہ تعالیٰ انہیں دھوپ اور سردی سے بچائے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ خوش وخرم رکھے گا۔ 3۔ جنتی کو جنت کے باغات اور ریشمی لباس دیئے جائیں گے۔ 4۔ جنتی کے سامنے جنت کے پھل لٹک رہے ہوں گے۔ 5۔ جنتی کے غلمان چاندی اور شیشے سے بنے ہوئے جاموں میں جنتی کو شراب پیش کریں گے۔ 6۔ جنت میں شراب کا ایک چشمہ ہوگا جس کا نام سلسبیل ہے اس شراب میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی۔ تفسیر بالقرآن: جنت کے چشمے اور نہریں : 1۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس :34) 2۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات :15) 3۔ اللہ نے مومن مرد اور عورتوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ اللہ کی رضابڑی بات ہے۔ (التوبہ :72) 4۔ ایمان والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا جس میں نہریں بہتی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (النساء :57) 5۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد :35) 6۔ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے جنت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ (آل عمران :198) 7۔ مومنوں کے ساتھ جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں چار قسم کی نہریں ہوں گی۔ پانی کی نہر، دودھ کی نہر، شراب کی نہر اور شہد کی نہر۔ ( سورۃ محمد :15) 8۔ متقین گھنے سایوں اور چشموں والی جنت میں ہوں گے۔ (المرسلات :41)