سورة الإنسان - آیت 7

يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے (١)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 7 سے 11) ربط کلام : جنتی کے مزید اوصاف۔ جنتی میں یہ اوصاف بھی بدرجہ اتم پائے جائیں گے کہ دنیا میں رہتے ہوئے وہ لوگ نذر مانتے تھے تو اس کو کماحقہٗ پورا کرتے تھے، نذر سے مراد وہ عمل یا صدقہ ہے جو مسلمان اپنے طور پر اپنے آپ پر واجب کرلیتا ہے، نذر وہی ماننی چاہیے جسے اللہ اور اس کے رسول نے جائز قرار دیا ہے، اس نذر کو پورا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ نذر ماننے والا شخص دوسرے فرائض بھی بدرجہ اتم پورے کرنے والا ہے جو شخص نذر پوری کرتا ہے لیکن فرائض سے غافل رہتا ہے وہ اس اجر کا مستحق نہیں ہوگا جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے نذر پوری کرنے والوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اس دن کے احتساب سے ڈرنے والے ہیں جس دن کی سختی پوری مخلوق کو گھیرے ہوئے ہوگی۔ جن و انس تو درکناراس دن ملائکہ بھی اپنے رب کے جلال سے خوف زدہ ہوں گے، جو مسلمان اس تصور کے ساتھ اپنی نذریں پوری کرتے اور اپنے رب کی رضا کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور اس عمل کے پیچھے ان کا مقصد بدلہ لینا یا شکریہ طلب کرنا نہیں ہوتا ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کا رب ان پر راضی ہوجائے کیونکہ وہ اپنے رب سے اس دن کے بارے میں ڈرتے ہیں جس دن چہرے خوفزدہ ہوں گے اور دل کانپ رہے ہوں گے۔ نذر پوری کرنے، یتیموں، مسکینوں اور فقیروں کو کھانا کھلانے کی وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ نہ صرف اس دن کی سختیوں سے محفوظ فرمائے گا بلکہ ان کے چہروں کو تازگی اور ان کے دلوں کو سرور بخشے گا۔ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر بیان ہوا ہے کہ قیامت کے دن کچھ چہرے سیاہ ہوجائیں گے اور کچھ چہرے روشن ہوں گے (آل عمران : 106، 107) جو چہرے کالے ہوں گے ان پر ذلّت اور نحوست چھائی ہوگی اور جو چہرے سفید ہوں گے وہ تروتازہ اور ہشاش بشاش ہوں گے۔ ( القیامہ : 22، 24) (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَجُلًا شَکَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ () قَسْوَۃَ قَلْبِہٖ فَقَالَ لَہٗ إِنْ أَرَدْتَّ تَلْیِیْنَ قَلْبِکَ فَأَطْعِمِ الْمِسْکِیْنَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْیَتِیْمِ) (رواہ احمد : باب مسند أبی ھریرۃ ھٰذا حدیث صحیح) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (ﷺ) سے اپنے دل کی سختی کے متعلق شکایت کی تو آپ نے فرمایا : اگر تو اپنے دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا۔“ (عَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَیْنٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃٍ وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ الْعَبْدُ) (رواہ مسلم : باب لا وفاء لنذر فی معصیۃ) ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا نافرمانی کی نذر کو پورا نہ کیا جائے اور جو چیز انسان کے قبضہ میں نہیں اسکی نذر نہ مانی جائے۔“ مسائل: 1۔ جو لوگ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں اور قیامت کی سختیوں سے ڈرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے چہرے تروتازہ فرمائے گا۔ 2۔ جو لوگ صرف اپنے رب کی رضا کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کی سختیوں سے بچائے گا اور ان کے چہروں کو ہشاش بشاش کردے گا۔ 3۔ اللہ کے بندے مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاکر بدلے اور شکریے کے طلبگار نہیں بنتے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن جنتی کے چہرے ہشاش بشاش اور روشن ہوں گے : 1۔ متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس :26) 2۔ جنتی کے چہرے پرنور ہوں گے۔ (آل عمران :107) 3۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (الغاشیہ :8) 4۔ مومنوں کے چہرے خوش وخرم ہوں گے۔ (العبس :38) 5۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (القیامۃ:22)