وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا
اور مجھے اور ان جھٹلانے والے آسودہ حال لوگوں کو چھوڑ دے اور انہیں ذرا سی مہلت دے۔
فہم القرآن: (آیت 11 سے 14) ربط کلام : نبی (ﷺ) کو صبر کرنے اور جھگڑا کرنے والوں سے کنارہ کش ہونے کی تلقین کرنے کے بعد آپ کے مخالفین کو زبردست انتباہ۔ قرآن مجید نے توحید، رسالت اور آخرت کے بارے میں سینکڑوں دلائل دیئے مگر پھر بھی اہل مکہ آپ (ﷺ) کو جھوٹا قرار دیتے تھے۔ اس پر ایک طرف آپ کو صبر کی تلقین کی گئی ہے اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ اے نبی! مجھے جھٹلانے والوں سے نبٹ لینے دیں یہ اپنی دولت کے نشے میں مست ہیں انہیں تھوڑی سی مزید مہلت دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر اپنے لیے ” ذَرْنِیْ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ مجھے چھوڑ دیں تاکہ جو لوگ بالخصوص سرمایہ دار آپ کو جھٹلاتے ہیں ان کے ساتھ نبٹ لوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کفار سے نبٹنے کے لیے اللہ تعالیٰ آپ (ﷺ) یا کسی دوسرے کے ہاتھیوں مجبور تھا اور ہے، یہ تنبیہ کا ایک انداز ہے جو ہر زبان میں مخالف کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ مقصد دوسرے کو زبردست انداز میں انتباہ کرنا ہوتا ہے دولت مند سے مراد کوئی خاص شخص نہیں بلکہ اس سے مراد مکہ کے وہ سردار ہیں جو وسائل اور افرادی قوت کی بنا پر اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے اور آپ (ﷺ) کے ساتھیوں کو حقیر جانتے تھے۔ انہیں بتلایا گیا کہ آخرت میں تمہارا انجام یہ ہوگا کہ ہمارے پاس تمہارے لیے بھاری بھر کم بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا اور اذّیت ناک عذاب ہوگا۔ اس دن زمین اور پہاڑ لرزا اٹھیں گے۔ جب بلند وبالا اور مضبوط ترین پہاڑ لرز اٹھیں گے تو ان کی کیا مجال کے یہ اپنے رب کے سامنے دم مار سکیں، اس مقام پر فرمایا کہ پہاڑ ریت کے ٹیلے بن جائیں گے دوسرے مقام پر ارشاد ہوا : ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُہَا رَبِّیْ نَسْفًا۔ فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا۔ لَّا تَرٰی فِیْہَاعِوَجًا وَّ لَآ اَمْتًا﴾ (طٰہٰ: 105تا107) ” یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ یہ پہاڑکہاں چلے جائیں گے فرمادیں کہ میرا رب ان کو دھول بناکر اڑا دے گا اور زمین کو چٹیل میدان بنا دے گا۔ تم زمین میں کوئی اونچ نیچ نہیں دیکھ پاؤ گے۔“ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ) (رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر) ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اسے آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔“ مسائل: 1۔ جھگڑالو لوگوں کے مقابلے میں صبر کرنا چاہیے اور ان سے بہترین انداز میں اپنا دامن بچانا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے مکذبین کے لیے بیڑیاں اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔ 3۔ مکذبین کے لیے بدترین کھانا اور اذیت ناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ 4۔ قیامت کے دن زمین اور پہاڑ اس طرح ہلا دئیے جائیں گے جس سے پہاڑ ریت کے ذرات بن جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کے نافرمانوں کا انجام : 1۔ قیامت کے دن مجرموں کو با ہم زنجیروں میں جکڑدیا جائے گا۔ (ابراہیم :49) 2۔ قیامت کے دن کفار کو طوق پہنا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (الحاقہ : 30، 31) 3۔ قیامت کے دن مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی۔ (المعارج :44) 4۔ قیامت کے دن مجرموں کے ابرو پاؤں کے انگوٹھے کے بال سے باندھ دیے جائیں گے۔ (الرحمن :41) 5۔ اس دن آپ دیکھیں گے کہ مجرم اپنے سروں کو جھکائے پروردگار کے سامنے پیش ہوں گے۔ (السجدۃ:12) 6۔ مجرم تھور کے درخت سے اپنے پیٹ بھریں گے اور کھولتا ہوا پانی پئیں گے۔ (الصٰفٰت : 66، 67) 7۔ بے شک مجرم ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الزخرف :74)