يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو (رسول اللہ علیہ و سلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ (١) پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ (٢)
فہم القرآن : ربط کلام : اپنے میں سے کسی کو حاکم بنانے کا یہ مقصد نہیں کہ حکمران حاکم مطلق بن جائے بلکہ وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع ہیں۔ امانتوں کی ادائیگی اور اختیارات کا صحیح استعمال کرنے کا حکم دینے کے بعد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا اس لیے فوری ذکر کیا ہے تاکہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ کوئی اپنے اختیارات میں آزاد ہے۔ اس بات کو مزید واضح کرنے کی خاطر ﴿اُولِی الْاَمْرِ﴾ کے لیے لفظِ ” اطاعت“ استعمال کرنے کے بجائے فقط واؤ کے عطف سے اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے تاکہ راعی اور رعیت، امیر اور مامور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنے آپ کو صرف اللہ اور اس کے رسول کے تابع فرمان سمجھیں۔ اسی سورۃ کی آیت ٦٤ اور ٨٠ میں واضح کیا کہ رسول کی اطاعت فی ذاتہٖ نہیں بلکہ در حقیقت وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا حقیقی منشاء سمجھنا اور اس کے مطابق سو فیصد عمل کرکے دکھلانا رسول کا کام ہوتا ہے۔ اگر رسول سے بتقاضاۓ بشریت کوئی چوک ہوجائے تو اللہ تعالیٰ فوراً اس کی درستگی فرما دیتا ہے۔ اس لیے رسول امت کے ہر شخص کے لیے اسوۂ حسنہ اور واجب الاتباع ہوتا ہے۔ رسول کے علاوہ کوئی شخص غیر مشروط اطاعت کے لائق نہیں۔ اگر امیرالمومنین یا بڑے سے بڑا عالم اور امام غلطی کرے یا اس کے ساتھ کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں وہ معاملہ قرآن و سنت کے سامنے رکھا جائے۔ پھر اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے سامنے ہر کسی کو سر تسلیم خم کرنا لازم ہے۔ یہی اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کا تقاضا ہے۔ اس طرز عمل میں دنیا کی بہتری اور آخرت کی خیرمضمر ہے اور اسی طریقے سے امت متحد رہ سکتی ہے۔ اگر کسی مسئلہ میں دلائل برابر ہوں تو اہل علم کی اکثریت کی پیروی کرنا ہوگی۔ امیر کا انتخاب اور اس کی اطاعت : اس فرمان میں امیر کے لیے ﴿مِنْکُمْ﴾ آیا ہے اور ﴿ کُمْ﴾ ضمیر استعمال کی ہے کہ وہ تم میں سے ہو۔ جس سے دوٹوک انداز میں واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا امیر مسلمان اور انہی کی مرضی سے ہونا چاہیے۔ کیونکہ امارت اور خلافت کی بنیاداُوپر سے نہیں نیچے سے قائم کی گئی ہے۔ تاکہ فکری اور عملی طور پر اس کی جڑیں گھر اور عوام میں ہوں اور ہر فرد اس ذمہ داری میں اپنے آپ کو برابر کا شریک سمجھے۔ جہاں تک امت میں سیاسی، گروہی اور مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے۔ اس کا شریعت میں صرف جواز کے سوا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا ان جماعتوں کے امراء اور سربراہوں کی حیثیت سفری امیر سے زیادہ نہیں۔ جس طرح اس کے وقتی اور محدود اختیارات ہوتے ہیں اسی طرح جماعتوں کے امراء کو اپنے حقوق و فرائض کا تعین کرنا چاہیے۔ مسائل : 1۔ مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول اور نیک حکمرانوں کی اطاعت کرنی چاہیے۔ 2۔ تنازعات کو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ 3۔ قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کرنا اور کروانا ایمان داروں کے لیے فرض ہے اسی میں دنیا اور آخرت کی بہتری ہے۔ تفسیر بالقرآن : اختلافات کا حل : 1۔ معاملہ اللہ کی طرف لوٹایا جائے۔ (الشوریٰ:10) 2۔ کتاب اللہ میں مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔ (المائدۃ:47) 3۔ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو فیصل تسلیم کیا جائے۔ (النساء :59) 4۔ جو اللہ کے رسول کو فیصل تسلیم نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں۔ (النساء :65) 5۔ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد مومن کو کوئی اختیار نہیں باقی رہتا۔ (الاحزاب :36) 6۔ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والا ظالم، کافر اور فاسق ہے۔ (المائدہ : 44، 45، 46) نوٹ : مزید تفصیل کے لیے دیکھیں میری کتاب ” اتحاد امت اور نظم جماعت“