يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَىٰ نُصُبٍ يُوفِضُونَ
جس دن یہ قبروں سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے، گویا کہ وہ کسی جگہ کی طرف تیز تیز جا رہے ہیں۔ (١)
فہم القرآن: (آیت 43 سے 44) ربط کلام : کفار اور نافرمان لوگ حقیقت تسلیم نہیں کرتے تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ نبی مکرم (ﷺ) انتہائی ہمدردی درد مندی کے ساتھ کفار کو اللہ کی توحید اور اس کے دین کی طرف دعوت دیتے لیکن وہ آپ کے قریب آنے اور آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے آپ پر مختلف قسم کے الزامات لگاتے اور آپ سے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ جس پر آپ (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تاکہ یہ دنیاوی مشاغل میں لگے رہیں۔ یہاں تک کہ انہیں موت آلے یہ اس دن اپنے رب کے حضور پیش ہوں جس دن کا ان کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ آج آپ کی دعوت سن کر دور بھاگتے ہیں لیکن جس دن صور پھونکا جائے گا تو یہ اس کی آواز پر اپنی اپنی قبروں سے نکل کر دوڑتے ہوئے اس طرح پہنچیں گے جس طرح وہ اپنے بتوں کی طرف دوڑ رہے ہوں۔ آج یہ نفرت اور حقارت کی بنا پر آپ کو آنکھیں پھاڑ پھا ڑکردیکھتے ہیں لیکن اس دن ذلّت اور خوف کی وجہ سے ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی اور کہنے والا کہے گا یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا اور تم اس کو جھٹلایا کرتے تھے۔ دوسرے نفخہ کے بعد لوگ قبروں سے نکل کر محشر کے میدان کی طرف اس طرح جائیں گے جیسے شکاری شکار کی طرف دوڑتا ہے یا مشرک اپنے بتوں اور درباروں کی طرف جاتے ہیں۔ اللہ کے باغی قبروں سے نکلتے ہی واویلا کریں گے، ہائے افسوس ! ہمیں کس نے قبروں سے نکال باہر کیا ہے۔ قیامت کی ہولناکیوں اور محشر کے میدان میں اکٹھے کیے جانے کا حال دیکھ کر انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہی قیامت کا دن ہے جس کا ہمارے ساتھ ربِّ رحمن نے وعدہ کیا تھا اور جس کی پیغمبریاد دہانی کروایا کرتے تھے۔ جس قیامت کے بارے میں یہ لوگ جھگڑتے اور کہتے ہیں کہ یہ کبھی نہیں آئے گی وہ تو اسرافیل کی ایک پھونک کا نتیجہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جوں ہی اسرافیل صور میں پھونک ماریں گے تو زمین میں شدید ترین زلزلے ہوں گے یہاں تک کہ زمین جگہ جگہ سے پھٹ جائے گی اور ہر کوئی اپنے اپنے مدفن سے نکل کھڑا ہوگا اور سب کے سب ربِّ ذوالجلال کے حضور حاضر ہوجائیں گے، لوگ پسینے سے شرابور ہوں گے اور اس طرح حواس باختہ ہوں گے جیسے انہوں نے نشہ کیا ہوا ہو۔ یہ حالت ان کی نشہ کی وجہ سے نہیں بلکہ محشر کی سختی اور ربِّ ذوالجلال کے جلال کی وجہ سے ہوگی۔ (الحج :2) اس موقع پر اعلان ہوگا کہ آج کسی پر رائی کے دانے کے برابر ظلم نہیں ہوپائے گا۔ (یٰس :54) (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ یُحْشَرُالنَّا سُ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ یَا عَائِشَۃُ اَلْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یَّنْظُرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ) (رواہ البخاری : باب کَیْفَ الْحَشْر) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول معظم (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے وہ ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھیں گے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : اس دن معاملہ اس کے برعکس ہوگا یعنی کوئی ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھ سکے۔“ مسائل: 1۔ اللہ کی توحید کا انکار اور حق سے انحراف کرنے والے کو بالآخر انہی کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ 2۔ جو لوگ اللہ کی توحید اور اس کے دین کا انکار کرتے ہیں قیامت کے دن وہ صور کی آواز پر دوڑتے ہوئے جمع ہوجائیں گے۔ 3۔ اللہ کی توحید اور اس کے دین کا انکار کرنے والوں کی آنکھیں ذلت اور خوف کی وجہ سے جھکی ہوں گی۔ 4۔ قیامت کا وعدہ سچا ہے جو ہر صورت پورا ہو کر رہے گا۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن لوگوں کا محشر میں اکٹھا ہونا : 1۔ یقیناً قیامت کے دن اللہ تمھیں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ (الانعام :12) 2۔ آپ فرما دیں تمھارے پہلے اور آخر والے کو ضرور اکٹھا کیا جائے گا۔ (الواقعہ : 47تا50) 3۔ پھر ہم تمھیں تمھاری موت کے بعد اٹھائیں گے۔ (البقرۃ:56) 4۔ جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا۔ (المائدۃ:109) 5۔ جس دن تم سب کو جمع ہونے والے دن اللہ جمع کرے گا۔ (التغابن :9) 6۔ یہ فیصلہ کا دن ہے ہم نے تمھیں بھی جمع کردیا ہے اور پہلوں کو بھی۔ (المرسلات :38)