أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنفُسَهُم ۚ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جو اپنی پاکیزگی اور ستائش خود کرتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے پاکیزہ کرتا ہے کسی پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہ کیا جائے گا (١)۔
فہم القرآن : (آیت 49 سے 50) ربط کلام : یہودیوں کا زعم ہے کہ ہم انبیاء (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کی بنا پر پوری دنیا سے ممتاز اور پاک لوگ ہیں اور عیسائی سمجھتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سولی پر لٹک کر ہمارے گناہوں کا کفارہ بن چکے ہیں۔ یہاں یہود ونصاریٰ کے حوالے سے ہر آدمی کو سمجھایا گیا ہے کہ کوئی بزرگوں سے نسبت کی بنیاد یا کسی کو اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھ کر اپنی پاک دامنی کا دعویٰ نہ کرے کیونکہ ہر آدمی اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ انبیاء کی اولاد ہونے یا کسی کے ساتھ عقیدت و محبت کی بنیاد پر آدمی پاک دامن نہیں ہوجاتا۔ جب تک وہ عقیدے کے اعتبار سے موحّد اور عمل کے لحاظ سے نبی آخرالزمان (ﷺ) کی پیروی کرنے والا نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی آدمی کا یہ عقیدہ بھی ہونا چاہیے کہ صرف ظاہری نیکی کی بنیاد پر انسان کا دل پاک نہیں ہوسکتاجب تک وہ نیکی کی روح کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ جس کا نام اخلاص اور تقو ٰی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی عنایت اور توفیق کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پاک وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے پاک کرکے جہنم سے محفوظ فرمادیاہو۔ اس کے باوجود لوگ یہ ذہن رکھتے ہیں کہ ہم بزرگوں سے نسبت اور ان کے طفیل جہنم سے بچ جائیں گے۔ یہودی تورات سے، عیسائی انجیل سے، بد عقیدہ مسلمان قرآن وسنت سے غلط استدلال کرتے ہیں۔ گویا کہ یہ بالواسطہ طور پر اللہ تعالیٰ پر کذب بیانی کرتے ہیں۔ یہ گناہ انہیں جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہے۔ رسول محترم (ﷺ) نے مصنوعی تقویٰ اور ایسے نام رکھنے سے منع فرمایا ہے جس سے خواہ مخواہ پاکدامنی کا اظہار ہوتا ہو۔ (عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ قَالَ سَمَّیْتُ ابْنَتِیْ بَرَّۃَ فَقَالَتْ لِیْ زَیْنَبُ بِنْتُ أَبِیْ سَلَمَۃَ (رض) إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) نَھٰی عَنْ ھٰذَا الْإِسْمِ وَسُمِّیْتُ بَرَّۃَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَاتُزَکُّوْا أَنْفُسَکُمْ اَللّٰہُ أَعْلَمُ بِأَھْلِ الْبِرِّ مِنْکُمْ فَقَالُوْا بِمَ نُسَمِّیْھَا قَالَ سَمُّوْھَا زَیْنَبَ) [ رواہ مسلم : کتاب الآداب] ” محمد بن عمرو بن عطاء (رح) کہتے ہیں میں نے اپنی بیٹی کا نام برہ رکھا۔ مجھے زینب بنت ابوسلمہ (رض) نے کہا کہ اللہ کے رسول (ﷺ) نے یہ نام رکھنے سے منع کیا ہے۔ میرا نام بھی برہ رکھا گیا تھا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اپنے آپ کو پاک نہ گردانو۔ اللہ جانتا ہے تم میں سے کون پاک ہے۔ انہوں نے پوچھاہم اس کا کیا نام رکھیں؟ آپ نے فرمایا اس کا نام زینب رکھو۔“ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ عَنْ أَبِیہِ (رض) قَالَ أَثْنَی رَجُلٌ عَلَی رَجُلٍ عِنْدَ النَّبِی (ﷺ) فَقَالَ وَیْلَکَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِکَ، قَطَعْتَ عُنَقَ صَاحِبِکَ مِرَارًا ثُمَّ قَالَ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَادِحًا أَخَاہُ لا مَحَالَۃَ فَلْیَقُلْ أَحْسِبُ فُلاَنًا، وَاللَّہُ حَسِیبُہُ، وَلاَ أُزَکِّی عَلَی اللَّہِ أَحَدًا، أَحْسِبُہُ کَذَا وَکَذَا إِنْ کَانَ یَعْلَمُ ذَلِکَ مِنْہُ ) [ رواہ البخاری : کتاب الشھادات، باب إذازکی رجل کفاہ] حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرۃ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم (ﷺ) کے پاس ایک آدمی نے آکر کسی کی تعریف کی۔ آپ نے فرمایا تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ کر رکھ دی۔ آپ نے یہ کلمات تین دفعہ دہرا کر فرمایا اگر کوئی ضرور کسی کی تعریف کرنا چاہتا ہے تو یہ کہے کہ فلاں آدمی کے بارے میں میرا یہ خیال ہے اللہ تعالیٰ اس کی حقیقت خوب جانتا ہے اور وہ یہ الفاظ تبھی کہہ سکتا ہے جب حقیقتاً اس شخص کو ایسا پائے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں تم کسی کی گارنٹی نہیں دے سکتے۔ مسائل : 1۔ آدمی کو اپنی پاکدامنی کا دعو ٰی نہیں کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر آدمی پاک اور نیک نہیں ہوسکتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والے کو بس یہی گناہ کافی ہے۔ تفسیر بالقرآن : اہل کتاب کی کذب بیانی : 1۔ آگ میں تھوڑی دیر رہنے کا دعو ٰی۔ (البقرۃ:80) 2۔ جنت کے ٹھیکیدار بننا۔ (البقرۃ:111) 3۔ ” اللہ کے محبوب“ ہونے کا دعو ٰی۔ (المائدۃ:18) 4۔ من گھڑت باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا۔ (آل عمران :78) 5۔ اپنے لیے جنت مخصوص سمجھنا۔ (البقرۃ:111) 6۔ ہدایت کو اپنے تک محدود کرنا۔ (البقرۃ:135) 7۔ نبوت کو تسلیم کرنے کے لیے قربانی کی شرط لگانا۔ (آل عمران :185) 8۔ اللہ تعالیٰ کی گستاخی کرنا۔ (المائدۃ:64) 9۔ بشر کی نبوت کا انکار کرنا۔ (الانعام :91)