وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ
لیکن جسے اس (کے اعمال) کی کتاب اس کے بائیں ہاتھ میں دی جائے گی، وہ تو کہے گا کاش کہ مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی (١)
فہم القرآن: (آیت 25 سے 37) ربط کلام : جنتی کے مقابلے میں جہنمی کا حال اور ان کی بدنصیبی۔ رب ذوالجلال کے حکم سے نیک لوگوں کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں پہنچ چکے ہوں گے اور انہیں جنت میں داخلہ دیا جائے گا۔ ان کے مقابلے میں برے لوگوں کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے، جونہی برے شخص کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ چیخ اٹھے گا اور کہے گا ہائے افسوس! کاش کہ مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا اور مجھے یہ علم ہی نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے، کاش ! دنیا کی موت ہی آخری موت ثابت ہوتی۔ آج نہ میرا مال میرے کام آیا اور نہ ہی میرے اقتدار اور اختیار نے مجھے فائدہ دیا یہاں اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ جبکہ دوسرے مقامات پر یہ تفصیل موجود ہے کہ لوگوں کو ان کے اعمال نامے دیئے جانے کے بعد کیا کیا معاملات پیش آئیں گئے۔ جب برے لوگوں کو ان کے اعمال دیئے جائیں گے تو وہ فریاد کریں گے کہ کاش! ہم مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں بالآخر مجرم ہر طرف سے مایوس ہوجائے گا۔ حکم ہوگا کہ اسے پکڑ لو اور اسے ستر گز لمبی زنجیر میں جھکڑ کر جہنم میں پھینک دو، یہ نہ اللہ پر ایمان لایا اور نہ ہی مسکین کو کھلانے کی ترغیب دیتا تھا، آج اس کا کوئی خیر خواہ نہیں ہوگا اور اسے جہنم کے پیپ کے سوا کوئی چیز کھانے کو نہیں دی جائے گی یہی مجرموں کا کھانا ہوگا۔ یہاں جہنمی کے دو گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ دوسرے مقامات پر ان کے دیگر گناہوں کا ذکر بھی موجود ہے ان میں پہلا گناہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اس طرح ایمان نہ لائے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے یہ کافر، مشرک منافق لوگ ہوں گے۔ ان کا دوسرا گناہ یہ ہوگا کہ وہ غریبوں اور محتاجوں کا خیال نہیں کرتے تھے گویا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے غافل تھے۔ اس لیے ان کے گلے میں طوق ڈال کر اور ستر گز لمبی زنجیر میں جکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ان کے کھانے میں جہنم کی پیپ بھی شامل ہوگی جو صرف ان کے لیے ہوگی۔ ” سلطان“ کا لفظ دلیل و حجت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اقتدار کے لیے بھی۔ اگر اسے دلیل وحجت کے معنٰی میں لیا جائے تو مطلب ہوگا کہ مجرم دنیا میں جو حجت بازیاں کیا کرتا تھا وہ قیامت کے دن نہیں چل سکیں گی، اگر سلطان کا لفظ اقتدار کے معنٰی میں لیا جائے تو مراد ہوگی کہ دنیا میں جس طاقت کے بل بوتے پر وہ اکڑتا تھا وہ قیامت کے دن ختم ہوجائے گی۔ وہ اقرار کرے گا کہ اب یہاں کوئی میرا لشکر نہیں، کوئی میرا حکم ماننے والا نہیں، میں بے بس اور لاچار مجرم کی حیثیت سے کھڑا ہوں جو اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ مسائل: 1۔ جسے دائیں ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ دیا گیا وہ پچھتائے گا اور اپنی موت کی تمنا کرے گا۔ 2۔ جہنمی اقرار کرے گا کہ آج میرا مال اور میرا اقتدار میرے کچھ کام نہیں آیا۔ 3۔ جہنمی کے جرائم میں سر فہرست یہ جرم ہوں گے کہ وہ اللہ پر ایمان نہ لائے اور مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ 4۔ جہنمی کے گلے میں طوق پہناکر انہیں زنجیروں میں جکڑ دیا جائے گا۔