سورة القلم - آیت 34

إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 34 سے 41) ربط کلام : مجرموں کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہوگا اور متقین کے لیے انعامات ہوں گے۔ فہم القرآن: کا مطالعہ کرنے والے حضرات جانتے ہیں کہ قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے کہ وہ نیکی اور برائی، متقین اور مجرمین جنت اور جہنم کا مقابلۃً ذکر کرتا ہے۔ اسی اسلوب کے پیش نظر یہاں بھی مجرموں کا انجام ذکر کرنے کے بعد متقین کے انعامات کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ کیا ہم تابعدار اور نافرمان لوگوں کو برابر کردیں؟ ایساہرگز نہیں ہوگا یقیناً متقی لوگ اپنے رب کے ہاں انعام وکر ام والی جنت میں ہوں گے۔ جب جنتیوں کے انعام کا ذکر کیا جاتا ہے تو کفار اور مشرکین کہتے ہیں کہ ہم ایمانداروں سے دنیا میں بھی بہتر ہیں اور آخرت میں بھی بہتر ہوں گے۔ ان کے دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنے بارے میں کس طرح کے فیصلہ کرتے ہو۔ یعنی تمہیں فیصلے کرنے کا کہاں سے اختیار حاصل ہوا ہے۔ کیا تمہارے پاس فیصلہ کرنے کے لیے کوئی آسمانی کتاب ہے جسے پڑھ کر یہ فیصلہ دیتے ہو کہ اس کتاب میں لکھا ہے کہ جو تم پسند کرتے ہو وہی تمہیں ملے گا ؟ یا تم نے ہم سے حلف لے رکھا ہے جو قیامت کو ہم پر لاگو ہوگا کہ جو چیز تم چاہو گے وہ تمہارے سامنے پیش کردی جائے گی۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! ان سے سوال کریں کہ یہ جو دعویٰ کرتے ہیں ان میں اس کی ذمہ داری کون لیتا ہے۔ کیا اس دعویٰ میں ان کے بنائے ہوئے شریک شامل اور وہ اس کے ضامن ہیں ؟ اگر ان کے شریک ضامن ہیں تو اپنے دعوے کی سچائی کے لیے اپنے شریکوں کو پیش کریں۔ ان آیات میں کفار کے اس دعویٰ کی تردید کی گئی ہے جو مسلمانوں کے سامنے کیا کرتے تھے، کفار کا دعویٰ تھا کہ جس طرح ہم دنیا میں وسائل کے اعتبار سے مسلمانوں سے آگے ہیں اسی طرح ہی قیامت کے دن بھی ہم ان سے بہتر ہوں گے۔ جس کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ ان آیات میں ان سے مختلف الفاظ اور انداز میں ان کے دعویٰ کی دلیل طلب کی گئی ہے کیونکہ وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے تھے اس لیے وہ اس میں لاجواب ہوگئے مگر پھر بھی یہ کہتے رہے اور کہتے رہیں گے کہ ہم آخرت میں مسلمانوں سے بہترہوں گے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ہاں نہ دنیا میں مسلمانوں سے کفار اور مشرکین بہتر ہیں اور نہ آخرت میں بہتر ہوں گے۔ ایماندارقیامت کے دن اپنے رب کے ہاں احترام اور مقام پائیں گے اور مجرم ذلیل ہوں گے اور بدترین سزا سے دوچار کیے جائیں گے۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ مَا سَقٰی کَافِرًا مِنْہَا شَرْبَۃَ مَاءٍ) (رواہ الترمذی : کتاب الزہد وہو حدیث صحیح) ” حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا : اگر دنیا کی وقعت اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتا۔“ (یعنی آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کچھ حیثیت نہیں ہے۔) مسائل: 1۔ متقی لوگ اپنے رب کے ہاں نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ 2۔ کفار اور مشرکین بلادلیل اپنے آپ کو بہتر سمجھتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تابعداروں اور مجرموں کو برابر نہیں کرے گا۔ تفسیر بالقرآن: دنیا اور آخرت میں کفار اور مشرکین مسلمانوں کے برابر نہیں ہوسکتے : ( التوبہ :28) (السجدۃ :18) (القلم : 35، 36) (المومن :58) (الحشر :20) (حٰم السجدۃ:34) (التوبہ :19)