سورة الملك - آیت 20

أَمَّنْ هَٰذَا الَّذِي هُوَ جُندٌ لَّكُمْ يَنصُرُكُم مِّن دُونِ الرَّحْمَٰنِ ۚ إِنِ الْكَافِرُونَ إِلَّا فِي غُرُورٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

سوائے اللہ کے تمہارا وہ کون سا لشکر ہے جو تمہاری مدد کرسکے کافر تو سراسر دھو کے میں ہیں (١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 20 سے 22) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی مزید قدرتوں کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ اپنی بڑی بڑی قدرتوں کا تذکرہ فرما کر منکرین حق کو دعوت فکر دیتے ہوئے سوال کرتا ہے کہ بتاؤ ! اگر ” اللہ“ تمہاری گرفت کرنے پر آئے تو کون ہے جو اللہ کے سوا تمہاری مدد کرسکے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے سوا کوئی بھی تمہاری مدد نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود کافر دھوکے میں مبتلا ہیں۔ اگر ” اللہ“ تمہارا رزق بند کرلے تو پھر کون تمہیں رزق دینے والاہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی نہیں۔ لیکن پھر بھی کافر اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کی توحید سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اپنے رب پر حقیقی ایمان لانے والا شخص یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے اور کم کرنے والاہے، اگر وہ کسی کی گرفت کا فیصلہ کرلے تو زمین و آسمانوں میں کوئی نہیں جو کسی کی مدد کرسکے۔ یہاں مومن اور کافر کے عقیدہ اور کردار کے فرق کو واضح کرنے کے لیے یہ مثال دی ہے کہ ایک وہ شخص ہے جو منہ کے بل چلتا ہے اور دوسرا وہ ہے جو اپنے پاؤں پر سیدھا ہو کر سیدھے راستے پر چلتا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ بتاؤ کہ ان میں سے کس کی سوچ اور انداز بہتر ہے اور کون ان میں منزل مقصود پر پہنچنے والا ہے ؟ کھلی حقیقت ہے کہ جو سر کے بل چلنے والا ہے وہ ذلّت و رُسوائی اٹھانے کے باوجود اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا اور جو صحیح فکر اور سیدھا ہو کر چلتا ہے وہ بالآخر منزل مقصود پانے والا ہے۔ اس مثال سے یہ ثابت کیا ہے کہ کافر، مشرک اور اللہ کے باغی کی سوچ بھی ہے الٹی ہے اور اس کا کردار بھی الٹا ہے۔ اللہ کا حکم ہے کہ مجھے ہر اعتبار سے ایک مانو! کافر اس بات کا انکار کرتا ہے اور مشرک اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتا ہے۔ باغی انسان اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے کی بجائے اس کی نافرمانی کرتا ہے۔ جس طرح دونوں کے عقیدہ اور کردار میں فرق ہے اسی طرح ان کے انجام میں فرق ہوگا اسی لیے اس کا ارشاد ہے : ” بھلا یہ ہوسکتا ہے کہ جو شخص مومن ہے وہ اس شخص کی طرح کردیا جائے جو فاسق ہے دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کے اعمال کے بدلے ان کی ضیافت کے لیے جنتوں کی قیام گاہیں ہیں اور جنہوں نے نافرمانی اختیار کی ہے ان کا ٹھکاناآگ ہے، جب اس سے نکلنا چاہیں گے تو اسی میں دھکیل دیے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا کہ اب آگ کے عذاب کا مزا چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔“ (السجدۃ: 18تا20) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کسی کا رزق بند یا تنگ کردے تو کوئی اسے رزق دینے والا نہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتیں جاننے کے باوجود کافر اور مشرک ” اللہ“ کو بلا شرکت غیرے حقیقی داتا اور مددگارماننے کے لیے تیار نہیں۔ 4۔ کفار اور مشرکین کی مثال منہ کے بل چلنے والے کی طرح اور موحِّد کی مثال پاؤں کے بل سیدھا ہو کر راستے پر چلنے والے کی طرح ہے۔ تفسیربالقرآن : کافر، مشرک، منافق اور مومن کے درمیان فرق : 1۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ (السجدۃ:18) 2۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہو سکتے۔ (الحشر :20) 3۔ سیدھا اور الٹا چلنے والا برابر نہیں ہوتا۔ (الملک :22) 4۔ اندھا اور بینا برابر نہیں ہوتا۔ (الانعام :50) 5۔ روشنی اور اندھیرے برابر نہیں ہوتے۔ (فاطر :20) 6۔ مجاہد اور غیر مجاہد برابر نہیں (النساء :95) 7۔ مومن اور کافر برابر نہیں ہیں۔ (الانعام :122) 8۔ مومن کافروں سے سربلند ہیں۔ (آل عمران :55) 9۔ متقین قیامت کو سربلند ہوں گے۔ (البقرۃ:212)