سورة التحريم - آیت 11

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی (١) جبکہ اس نے دعا کی اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعوں سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 11 سے 12) ربط کلام : بد قسمت عورتوں کا انجام ذکر کرنے کے بعد دو عظیم عورتوں کے کردار اور انعام کا ذکر۔ اس سے پہلے دو بدقسمت عورتوں کے انجام کا ذکر کیا ہے جو دو عظیم انبیاء (علیہ السلام) کی بیویاں تھیں لیکن ایمان اور صالح کردار نہ ہونے کی وجہ سے ان کو ان کی قوم کے ساتھ ہی تباہ کردیا گیا اور آخرت میں انہی کے ساتھ جہنم کا ایندھن بنیں گی۔ اب ان دو معزز خواتین کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جن میں ایک دنیا کے بدترین انسان فرعون کی بیوی تھی جو ہر قسم کا آرام اور مقام چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی۔ جونہی وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائی تو فرعون نے اس پر جو رو استبداد کے پہاڑ ڈھادیئے۔ اس کربناک اور نازک ترین آزمائش میں اس نے اللہ کی بارگاہ میں فریاد کی کہ اے میرے مالک ! میں اس گھر سے تنگ آچکی ہوں، فرعون اور اس کے عملے کے ظلم کے سامنے بے بس ہوچکی ہوں۔ تیرے حضور میری فریاد ہے کہ مجھے جنت میں اپنے پاس گھر عطا فرما، فرعون اور اس کے ظالم عملے سے نجات نصیب فرما۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مومن بندی کی فریاد قبول فرمائی اور اس کی موت سے پہلے اسے اس کے جنت کے گھر کا دیدار نصیب کیا۔ نبی محترم (ﷺ) نے اس عظیم عورت کا نام آسیہ بتلایا ہے۔ ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) نے فرمایا : عورتوں میں عائشہ کی فضیلت ایسے ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی ہے، مردوں میں بہت سے کامل لوگ ہیں لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۂ فرعون کے علاوہ کوئی کامل نہیں۔“ (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ﴿ إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُك﴾) حضرت مریم بنت عمران جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجہ ہیں۔ قرآن مجید نے ان کی حیات طیبہ اور پاکدامنی کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید کی ایک سورت کا نام ہی مریم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔ اس نے اپنے رب کے فرمان اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور بڑی فرمانبردار تھی۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔ جبرئیل امین کی پھونک کے ساتھ وہ حاملہ ہوگئیں تو اس حالت میں مسجد اقصیٰ سے دور ایک مکان میں جا ٹھہریں جب اسے زچگی کی تکلیف محسوس ہوئی تو وہ ایک کھجور کے تنے کے قریب آئیں۔ بدنامی اور ولادت کی تکلیف کی وجہ سے بے ساختہ کہنے لگی کاش! میں اس سے پہلے مرجاتی اور لوگوں کے ذہن میں بھولی بسری ہوچکی ہوتی۔ اس مشکل وقت میں فرشتے نے کھجور کے نیچے سے آواز دی اے مریم (علیہا السلام)! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے رب نے تیرے پاؤں تلے ایک چشمہ جاری کردیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلاؤ تیرے سامنے ترو تازہ کھجوریں آگریں گی۔ کھجوریں کھاؤ، پانی پیو اور بیٹے سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اگر کسی آدمی کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھو تو اسے کہو کہ میں نے رب رحمن کے لیے چُپ رہنے کی منت مانی ہے اس لیے میں آج کسی مرد و زن سے بات نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم ( علیہا السلام) کو بڑی عزت اور تکریم سے سرفراز فرمایا جن کا یہاں مختصر ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی ازواج اور ان کے مقابلے میں فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران کا ذکر فرما کر یہ واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کا حسب نسب اور رشتہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کے حضور جو چیز قابل قبول ہے وہ انسان کا ایمان اور صالح کردار ہے۔ اس اصول کی بنا پر دو انبیاء کی بیویاں جہنم کا ایندھن بنیں اور فرعون کی بیوی اور عمران کی بیٹی مریم دنیا اور آخرت میں اعلیٰ مقام سے سرفراز کی گئیں۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی بیوی کی دعا قبول کی اور اسے فرعون اور اس کے ظالم عملے سے نجات عطا فرمائی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی بیوی کو اس کی موت سے پہلے جنت کی خوشخبری عطا فرمائی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم میں اپنی روح پھونکی۔ 4۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی والدہ مریم بنت عمران بڑی ہی پاکباز اور معزز خاتون تھی۔ 5۔ حضرت مریم بڑی صالح کردار اور اللہ کے فرمان اور اس کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی تھی۔ تفسیر بالقرآن: حضرت مریم علیہا السلام کا تذکرہ : (البقرۃ:78) (آل عمران :45) (البقرۃ:253) (المائدۃ:75) (آل عمران :59) (النساء :171) (المائدۃ:75)