الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں (١) پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں یہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو (٢) بیشک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 34 سے 35) ربط کلام : معاشرتی‘ مالی حقوق اپنی جگہ مسلّم لیکن خاندانی یونٹ کو متوازن اور مستحکم رکھنے کے لیے مرد کو گھر کا ناظم مقرر کیا گیا ہے اگر میاں بیوی کے درمیان تنازعہ ہوجائے تو اس کا طریقہ کار بھی طے کردیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے گھر یلو زندگی کو ایک یونٹ قرار دے کر مرد کو اس کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ جس کے لیے ﴿قَوَّامَ﴾ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنی ہے ہر قسم کی نگرانی اور انتظام کرنے والا۔ گھر کا منتظم اس لیے مقرر کیا تاکہ گھر کا نظام مضبوط اور صحت مند خطوط پر چلتا رہے۔ مرد کو منتظم بنانے کی دو وجوہات بیان فرمائیں تاکہ عورت کے ذہن میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔ پہلی یہ کہ مرد ذہنی اور جسمانی لحاظ سے عورت کے مقابلے میں مضبوط اور برتر پیدا کیا گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مرد پر بیوی بچوں کی حفاظت اور ان کے اخراجات کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ تاکہ عورت باہر کی الجھنوں سے بچ کر سکون کے ساتھ خاوند کی خدمت‘ بچوں کی تربیت اور صنف نازک ہونے کی وجہ سے آرام کی زندگی گزار سکے۔ اگر غور سے سوچا جائے تو عورت کی گھریلو مصروفیات اس قدرزیادہ ہیں کہ وہ باہر کے کاموں کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتی۔ چہ جائیکہ اس پر ملازمت یا کاروبار کی دوہری ذمہ داری ڈال دی جائے۔ معاشرہ اس بات کا گواہ ہے کہ جو عورتیں کسی مجبوری یا محض گھریلو بجٹ میں اضافہ کرنے کے لیے ملازمت کرتی ہیں۔ انہیں گھر اور بچوں کو سنبھالنے کے لیے کوئی ملازمہ رکھنا پڑتی ہے۔ بصورت دیگر ان کے گھر کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے یہاں تک کہ ان کے پاس کھانا پکانے کا وقت بھی نہیں ہوتا۔ ایسے جوڑے اپنی ڈیوٹی سے گھر آتے وقت کھانا بھی ہوٹل سے لاتے ہیں۔ ان مسائل کی بنا پر عورت کو گھر کی ملکہ اور خاوند کو مشکل معاملات کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ جب سے مسلمان خواتین نے بلا مجبوری مرد کی ذمہ داریوں میں حصہ لینا شروع کیا ہے اس وقت سے عورت میں خود سری اور نخوت پیدا ہونے کے ساتھ مسلمان معاشرہ توڑ پھوڑ کا شکار، گھروں کا سکون برباد اور اولاد ماں باپ کی نافرمان ہوچکی ہے۔ کتنا ہی بہتر ہوتا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تقسیم کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے تو اولاد کی نافرمانیوں‘ گھروں کی بربادی اور معاشرتی بے حیائی سے محفوظ رہتے۔ نیک بیوی کے کردار میں دو خوبیاں نمایاں ہونی چاہییں۔ خاوند کی مطیع اور اس کی عزت و ناموس، مال اور اولاد کی حفاظت کرنے والی ہو۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے گھر کی نگرانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر عورت مرد کے مقابلے میں آئے اور اس کی بغاوت کرے تو اسے بہتر الفاظ اور اچھے انداز میں نصیحت کرنی چاہیے۔ ٹکراؤ کی صورت میں گھریلو زندگی بے چینی اور عدم توازن کا شکار ہوگی بلکہ اولاد پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔ خاص کر بیٹیوں کے مستقبل پر اس کے نہایت ہی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نفع ونقصان سمجھانے کے باوجود بیوی اگر اپنی روش ترک کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو خاوند کو اس کے ساتھ اپنی قربت ختم کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ جس کے لیے قرآن مجید نے بستر الگ کردینے کا حکم دیا ہے جو حیا دار اور خاندانی عورت کے لیے بہت بڑی سزا ہے۔ عورت میں اگر معمولی عقل اور حیا ہوگی تو وہ ضرور سوچنے پر مجبور ہوگی کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے بیگانگی اور ایک دوسرے سے بیزاری اچھی نہیں۔ بصورت مجبوری تیسرا اور آخری اقدام یہ ہے اسے ہلکی پھلکی جسمانی سزا دی جائے تاکہ اس کی آنکھیں کھل جائیں کہ اب گھر کی ملکہ کے بجائے میں لونڈی کے مقام پر آکھڑی ہوں اور میرا گھر عقوبت خانہ اور اس کا ماحول میرے لیے اچھوت بن چکا ہے۔ کوئی عورت اگر اس قدر جاہل اور ہٹ دھرم ہو کہ وہ سدھرنے کا نام نہ لے تو پھر دونوں خاندانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قریبی رشتہ داروں سے دو آدمی ثالث مقرر کریں۔ ثالثوں کا دونوں طرف سے رشتہ دار ہونا اس لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف کھل کر بات چیت اور معاملات سلجھا سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ میاں بیوی اور خاندان کی عزت بھی سلامت رہ سکے گی۔ بالفاظ دیگر گھر کا معاملہ گھر ہی میں نمٹ جائے گا۔ اگر ثالث اور میاں بیوی اخلاص کے ساتھ معاملہ سدھارنا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں ہمت اور توفیق نصیب فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ان میں کون زیادہ قصور وار اور کون اخلاص کے ساتھ صلح کی کوشش کررہا ہے؟ (عَنْ حَکِیْمِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ الْقُشَیْرِیِّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَاحَقُّ زَوْجَۃِ أَحَدِنَا عَلَیْہِ قَالَ أَنْ تُطْعِمَھَاإِذَا طَعِمْتَ وَتَکْسُوَھَا إِذَا اکْتَسَیْتَ وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلَا تُقَبِّحْ وَلَا تَھْجُرْ إِلَّا فِی الْبَیْتِ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا] ” حضرت حکیم بن معاویہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! ہم پر ہماری بیویوں کے کیا حقوق ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : جب تو کھانا کھائے تو اسے بھی کھلائے جب تو کپڑے پہنے اسے بھی پہنائے منہ پر نہ مارے‘ نہ گالی دے اور اسے نہ چھوڑ مگر گھر میں۔“ عورت کی سربراہی : بعض نام نہاد دانشور غیر مسلموں سے متاثر ہو کرنا صرف اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ عورت کو مرد کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہیے بلکہ وہ مغربی جمہوریت کی پیروی میں عورت کو ملک کا سربراہ بنانے میں حرج نہیں سمجھتے۔ اس کے لیے ” سورۃ النمل“ سے ملکہ سبا کی حکومت کا حوالہ دیتے ہیں۔ ایسے دانشور یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ مملکت سبا کی ملکہ بلقیس اس وقت تک ہی اپنے ملک کی حکمران رہی تھی جب تک وہ کافرہ تھی۔ جو نہی وہ اپنے وقت کے نبی حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر ایمان لائی تو اس نے اپنے آپ کو ان کے حوالے کردیا۔ اس کے بعداس کی حکمرانی کا تاریخ میں ثبوت نہیں ملتا۔ کچھ لوگ جنگ جمل میں حضرت عائشہ (رض) کی سربراہی کا حوالہ دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات بھی انصاف کے ترازو پر پوری نہیں اترتی۔ کیونکہ حضرت عائشہ (رض) نے زندگی بھر کبھی مسلمانوں کی خلیفہ بننے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ وہ تو شدید ہنگامی حالات میں مسلمانوں کے درمیان صلح کی غرض سے نکلی تھیں۔ لیکن حالات کی پیچیدگی میں پھنس کر رہ گئیں۔ اس لیے وہ زندگی بھر اپنے اس اقدام پر پریشان اور پشیمان رہیں۔ جب بھی قرآن مجید کی اس آیت ﴿وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ﴾ [ الاحزاب :33] کی تلاوت کرتیں تو زارو قطار رویا کرتی تھیں۔ [ طبقات ابن سعد] عورت کی حکمرانی اور اسلام : ہم یہاں مولانا سید جلال الدین انصر کی کتاب ” عورت اسلامی معاشرے میں“ سے کچھ اقتباس درج کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں : ” قدیم تاریخ کے متعلق کسی قدر مفصل اور مستند معلومات ہمیں یونانیوں اور رومیوں کے عہد سے ملتی ہیں۔ انہوں نے تہذیب وتمدن اور علوم وفنون میں اس قدر ترقی کی کہ اس کی بنیاد پر بہت سی تہذیبیں اور بہت سے علوم وجو میں آئے لیکن بایں ہمہ ترقی، ان کے ہاں عورت کا مقام بہت ہی پست تھا۔ وہ اس کو انسانیت پر بار سمجھتے تھے اس کا مقصد ان کے نزدیک سوائے اس کے کچھ نہیں تھا کہ خادمہ کی طرح گھر والوں کی خدمت کرتی رہے۔ اہل یونان اپنی معقولیت پسندی کے باوجود عورت کے بارے میں ایسے ایسے تصورات رکھتے تھے جن کو سن کر ہنسی آتی ہے لیکن ان سے اس بات کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ان کی نگاہ میں عورت کی کیا قدر وقیمت تھی اور وہ اپنے درمیان اسے کیا حیثیت دیتے تھے۔ ان کا قول تھا آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈسنے کا علاج ممکن ہے لیکن عورت کے شر کا مداوا محال ہے۔ پنڈور انامی ایک عورت کی بابت ان کا عام اعتقاد تھا کہ وہی تمام دنیاوی آفات ومصائب کی جڑ ہے۔ ایک یونانی ادیب کہتا ہے : دو مواقع پر عورت مرد کے لیے باعث مسرت ہوتی ہے ایک تو شادی کے دن دوسرا اس کے انتقال کے دن۔“ لیکی نے اپنی کتاب ” تاریخ اخلاق یورپ“ میں لکھا ہے : ” بہ حیثیت مجموعی باعصمت یونانی بیوی کا مرتبہ نہایت پست تھا اس کی زندگی مدۃ العمر غلامی میں بسر ہوتی تھی لڑکپن میں اپنے والدین کی، جوانی میں اپنے شوہر کی، بیوگی میں اپنے فرزندوں کی وراثت میں اس کے مقابلہ میں اس کے مرد اعزہ کا حق ہمیشہ رائج سمجھا جاتا تھا۔ طلاق کا حق اسے قانوناً ضرور حاصل تھا تاہم عملًا وہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتی تھی۔ کیونکہ عدالت میں اس کا اظہار یونانی ناموس وحیا کے منافی تھا۔۔ افلاطون نے بلاشبہ مرد اور عورت کی مساوات کا دعویٰ کیا تھا لیکن یہ تعلیم محض زبانی تھی۔ عملی زندگی اس سے بالکل غیر متاثر رہی۔ ازدواج کا مقصد خالص سیاسی رکھا گیا۔ یعنی یہ کہ اس سے طاقتور اولاد پیدا ہوجوحفاظت ملک کے کام آئے۔“ (عورت اسلامی معاشرہ میں صفحہ :19،20، 21) یہ تو تھا یونانی تہذیب میں عورت کا مقام ومرتبہ جس کی معقولیت پسندی کا تاریخ کے اوراق میں آج بھی شہرہ ہے۔ اب ذرا مذکورہ مصنف لیکی ہی کی زبان سے رومی تہذیب میں عورت کے احوال کا تذکرہ کیا سماعت فرمالیں وہ لکھتا ہے : ” عورت کا مرتبہ رومی قانون نے عرصہ دراز تک نہایت پست رکھا، افسر خاندان جو باپ ہوتا تھا یا شوہر، اسے اپنے بیوی بچوں پر پورا اختیار حاصل تھا۔ وہ عورت کو جب چاہے گھر سے نکال سکتا تھا۔ جہیز یا دلہن کے والد کو نذرانہ دینے کی رسم کچھ بھی نہ تھی اور باپ کو اس قدر اختیار حاصل تھا کہ جہاں چاہے اپنی لڑکی کو بیاہ دے بلکہ بعض دفعہ تو وہ کی کرائی شادی کو توڑ دیتا تھا۔ زمانہ مابعد یعنی دور تاریخی میں یہ حق باپ کی طرف سے شوہر کی طرف منتقل ہوگیا اور اب اس کے اختیارات یہاں تک وسیع ہوگئے ہیں کہ وہ چاہے تو بیوی کو قتل کرسکتا تھا۔20 5 ء تک طلاق کا کسی نے نام نہ سنا تھا۔“ غلاموں کی طرح عورت کا مقصد بھی خدمت اور چاکری سمجھا جاتا تھا۔ مرد اسی غرض سے شادی کرتا تھا کہ وہ بیوی سے فائدہ اٹھاسکے گا۔ وہ کسی عہدے کی اہل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ حتی کہ کسی معاملہ میں اس کی گواہی تک کا اعتبار نہیں تھا۔ البتہ اس کی طبعی کمزوریوں کی بناء پر اس کو بعض سہولتیں دی گئی تھیں۔ اس میں شک نہیں کہ بعد کے ادوار میں رومیوں نے اس کو حقوق بھی دیے لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کو مرد کے مساوی درجہ کبھی نہیں دیا۔“ (عورت اسلامی معاشرہ میں صفحہ نمبر :21، 22) [ بحوالہ انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا، عورت کی سماجی ومعاشرتی حالت][ ماخوذ از ” عورت کی حکمرانی اور اسلام“ مصنف فخرا لدین صدیقی] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر برتری عنایت فرمائی ہے۔ 2۔ مرد اپنی کمائی سے عورتوں کی کفالت کرتے ہیں۔ 3۔ عورتوں کو خاوندوں کی تابعداری اور اپنی عزت و عفت کی حفاظت کرنا چاہیے۔ 4۔ نافرمان بیویوں کو نصیحت کرنا۔ 5۔ دوسرا قدم خواب گاہوں میں ان سے علیحدگی اختیار کرنا۔ 6۔ تیسرا قدم ہلکی پھلکی سزا دینا ہے۔ 7۔ اطاعت شعار بیوی پر زیادتی کرنا جائز نہیں۔ 8۔ میاں بیوی کے درمیان اختلافات پہلی تینوں صورتوں سے حل نہ ہوں تو دونوں کی طرف سے رشتہ دار ثالثان مقرر کرنے چاہییں۔ تفسیر بالقرآن : نیک عورتوں کے اوصاف : 1۔ پاک دامن، حیا دار اور با پردہ۔ (المائدۃ: 5، القصص :25) 2۔ مطیع‘ توبہ کرنے والی‘ عبادت گزار اور روزے دار۔ (التحریم :5) 3۔ صدقہ کرنے والی‘ صابرہ‘ ڈرنے والی‘ سچی‘ پاکدامنہ‘ اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والی۔ (الاحزاب :35)